Sunday 15 December 2013

بنگلہ دیش کا بحران




2013/12/13 Syed Abdul Bais <agent.of.the.change@gmail.com>

بنگلہ دیش ایک بار پھر بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے جو جنوبی ایشیا کے توازن پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ جس وقت بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ چین میں سرحدی دفاع کے معاہدے پر دستخط اور چینی کمیونسٹ پارٹی اسکول میں مستقبل کے نظریاتی رہنماؤں سے خطاب میں مصروف تھے، تب ڈھاکا میں بھارتی سفارت کار بنگلہ دیش کی وزیراعظم (عوامی لیگ کی سربراہ) شیخ حسینہ واجد اور سابق وزیراعظم (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ) بیگم خالدہ ضیاء کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، تاکہ بنگلہ دیش میں اچانک رونما ہونے والا سیاسی بحران ختم ہو اور اقتدار کی پرامن منتقلی کی راہ ہموار ہو۔

آخر کار شیخ حسینہ واجد نے تعطل ختم کرنے کی خاطر ایک ایسی عبوری حکومت تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی، جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے نمائندے ہوں تاکہ آئندہ عام انتخابات کی بہتر نگرانی کی جاسکے۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے بیگم خالدہ ضیاء سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور انہیں عشائیے پر مدعو کیا۔ مگر خالدہ ضیاء نے یہ دعوت ٹھکراتے ہوئے ۶۰ گھنٹوں کی ملک گیر ہڑتال جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ یہ ہڑتال خوں ریز ثابت ہوئی۔ دونوں رہنماؤں نے ٹیلی فون پر کم و بیش ۳۷ منٹ بات کی مگر اس رابطے میں کام کی باتیں نہ ہوسکیں اور قوم کا اعتماد بھی بحال نہ ہوسکا۔

بیگم خالدہ ضیاء اس نکتے کو پکڑے بیٹھی تھیں کہ شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لیے غیر جماعتی پس منظر رکھنے والی شخصیات پر مشتمل حقیقی غیر جانب دار عبوری کابینہ تشکیل دی جائے۔ شیخ حسینہ واجد کا استدلال تھا کہ آئین کی پندرہویں ترمیم کے بعد ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ انہوں نے ایک ایسی عبوری کابینہ تشکیل دینے کی پیشکش کی جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہوں۔ اپوزیشن لیڈر اپنی بات پر اڑی یا ڈٹی رہیں، جس سے مفاہمت کی گنجائش برائے نام رہ گئی۔ شیخ حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیاء کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کو ٹی وی چینلوں کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ پر بھی جاری کردیا گیا۔ پورا ملک یہ سوچ رہا تھا کہ آنے والے دنوں میں ایسا کیا ہے جس سے بہتری کی توقع رکھی جائے۔

مرکزی شو کے ساتھ ساتھ ایک سائڈ شو بھی چل رہا تھا۔ امریکا اور بھارت کے سفارت کار سیاسی تعطل ختم کرنے کی اپنے طور پر کوشش کر رہے تھے۔ بنگلہ دیشی ٹی وی چینلوں نے خبر بھی دی کہ معاملات جب آسانی سے بنتے دکھائی نہ دیے تو امریکی ایلچی ڈین موزینا نے نئی دہلی جاکر حکام سے بات کرنا مناسب سمجھا۔ جب ڈینی موزینا کی نئی دہلی سے واپسی ہوئی تب ٹی وی چینلز نے یہ خبر چلادی کہ بنگلہ دیش کی صورت حال کے حوالے سے امریکا اور بھارت کے خیالات میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ نئی دہلی میں دفتر خارجہ اور ڈھاکا میں بھارتی ہائی کمشنر اس خبر کو سُن کر مشتعل ہوگئے اور انہوں نے وضاحت کردی کہ بھارت اور امریکا کے درمیان اس معاملے پر ہم آہنگی بالکل نہیں۔

بھارتی سفارت کاروں نے بعد میں بتایا کہ ڈینی موزینا کا طرزِ عمل ایسا تھا جیسے وہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی میں کسی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن رہے ہوں۔ وہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو اقتدار دلانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے۔ دوسری طرف خالدہ ضیاء نے طے کر رکھا ہے کہ وہ شیخ حسینہ واجد کو کسی نہ کسی طرح اقتدار سے محروم کرکے دم لیں گی۔ وہ اس معاملے میں انتہائی نچلی سطح پر جاکر یعنی شہری علاقوں میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کے احتجاجی مظاہروں کا سہارا لینے کے لیے بھی تیار ہیں۔

جب میڈیا میں یہ بات ابھری کہ بنگلہ دیش کے معاملے پر امریکا اور بھارت کا موقف یکساں ہے، تو بھارتی سفارت کاروں نے اسے ایک ایسی کوشش کے طور پر دیکھا جس کا مقصد بھارت کو بنگلہ دیش میں اس کے حقیقی دوست (عوامی لیگ) سے بدگمان کرنا ہو۔ کسی بھی بنگلہ دیشی حکومت نے بھارت کی سلامتی یقینی بنانے اور اس کے اسٹریٹجک مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں عوامی لیگ سے بڑھ کر کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ بہت سی پیچیدگیوں کے باوجود بھارت کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنی بہترین بنگلہ دیشی حلیف شیخ حسینہ واجد کا ساتھ نہ چھوڑے۔ جب امریکا کو دوستی کے معاملے میں اپنی پسند کے مطابق کام کرنے کا حق ہے تو بھارت اس حق سے کیوں محروم رہے یا دستبردار ہو؟

امریکا کا خیال یہ ہے کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی حکومت اس کے اسٹریٹجک مفادات کی بہتر نگہبان ثابت ہوگی اور بنگلہ دیش میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے میں اس کا ساتھ دے گی۔ دوسری طرف بھارت خالدہ ضیاء کے بارے میں تحفظات کا حامل ہے۔ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۶ء تک بنگلہ دیش میں بی این پی کی حکومت رہی مگر اس دوران نئی دہلی اور ڈھاکا کے تعلقات میں سردمہری رہی۔ بھارتی حکومت بہت سے اہم امور میں خالدہ ضیاء کو ہمنوا نہ بناسکی۔ بھارت کے لیے اصل دردِ سر جماعتِ اسلامی اور حفاظتِ اسلام ہیں۔

بھارت یہ بھی سمجھتا ہے کہ واشنگٹن بنگلہ دیش میں اسلامی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے صَرفِ نظر کر رہا ہے اور یوں اس کی توجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہٹ رہی ہے۔

بھارت اور امریکا دونوں کے لیے بنگلہ دیش کے حالات کے حوالے سے سب سے زیادہ پریشان کن بات چین کا وہ مؤقف تھا، جو ایک نامعلوم سفارت کار نے طشت از بام کیا۔ ڈھاکا میں چینی سفیر لی جُن نے بنگلہ دیش میں تیزی سے رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔ لی جُن اپنے کسی بھی پیشرو کے مقابلے میں زیادہ کھل کر بولنے والے ثابت ہوئے ہیں۔ چند ہفتوں کے دوران لی جُن نے بنگلہ دیش کے سیاسی بحران کے بارے میں تین مرتبہ لب کشائی کی ہے اور معاملات کو تشدد سے نمٹانے سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ چین دونوں بڑی جماعتوں میں اپنے دوستوں کے ذریعے ثالثی کے لیے تیار ہے تاکہ بنگلہ دیش کسی بڑے بحران سے بچ جائے۔

چین چاٹگام کے ساحل پر سوناڈیا کے نزدیک گہرے پانی کی بندرگاہ تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ اس نے یہ منصوبہ، تمام مشکلات اور پیچیدگیوں کے باوجود، اب تک ترک نہیں کیا۔ اس بندرگاہ کی تعمیر سے چین، میانمار (برما)، بنگلہ دیش اور بھارت تجارت میں خاصی آسانی محسوس کریں گے۔ بھارتی حکام کو یقین ہے کہ سوناڈیا کی بندرگاہ تعمیر ہونے سے وہ شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں تک زیادہ آسانی سے پہنچ سکیں گے۔

بنگلہ دیش میں سنگین ہوتے ہوئے سیاسی بحران سے بھارت کو اپنی شمال مشرقی ریاستوں کے حوالے سے بھی فکر لاحق ہے، جہاں علیحدگی کی تحاریک چل رہی ہیں اور تشدد بڑھتا جارہا ہے۔ بھارت اس مرحلے پر ڈھاکا میں ناموافق حکومت برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ ۱۹۷۱ء جیسی ہی صورت حال ہے، جب مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی تھی اور امریکا کو مداخلت سے روکنے کے لیے بھارت نے اپنی فوج وہاں اتاری اور پاکستان کے ایک بازو کو الگ کرکے بنگلہ دیش میں تبدیل کردیا۔

بھارت کے پاس اب ایک اچھا آپشن یہ ہے کہ امریکی اثرات کو متوازن رکھنے کے لیے چین سے معاملات درست رکھے۔ بھارت یہ ثابت کرنے کے لیے بے تاب دکھائی دے رہا ہے کہ وہ کسی کے اشاروں پر کام کرنے کے بجائے اپنی مرضی اور مفاد کے مطابق چلے گا۔ بنگلہ دیش میں بھارت مستقبل قریب میں یہی دکھانے کی کوشش کرے گا۔

 

 

Subir Bhaumik

Times of India


India is a real culprit and responsible for all insurgencies in Bangladesh.

--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/groups/opt_out.



--
Need Your Comments.....!

-- 

For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to
For more options, visit this group at

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.