---------- ----------
From: saba sagar <gulerana43@yahoo.com>
Date: 2013/7/27
Subject: [] زکوٰۃ
To: "notavailables@yahoogroups.com" <notavailables@yahoogroups.com>, "NICEpoetry_Group@yahoogroups.com" <NICEpoetry_Group@yahoogroups.com>, "NasreeN-GrouP@yahoogroups.com" <NasreeN-GrouP@yahoogroups.com>, "PakistanWritersClub-Riyadh@yahoogroups.com" <PakistanWritersClub-Riyadh@yahoogroups.com>, "Pehli_Nazar_Ka_Pyaar@yahoogroups.com" <Pehli_Nazar_Ka_Pyaar@yahoogroups.com>, "Pindi-Islamabad@googlegroups.com" <Pindi-Islamabad@googlegroups.com>, "pakistan-my-quest@yahoogroups.com" <pakistan-my-quest@yahoogroups.com>, "publishyourself@yahoogroups.com" <publishyourself@yahoogroups.com>, "queen_of_roses@yahoogroups.com" <queen_of_roses@yahoogroups.com>, "Rukhsana@yahoogroups.com" <Rukhsana@yahoogroups.com>, "raynbow@yahoogroups.com" <raynbow@yahoogroups.com>, "SALMANRIZWAN@yahoogroups.com" <SALMANRIZWAN@yahoogroups.com>, "SanaM_O_SanaM@yahoogroups.com" <SanaM_O_SanaM@yahoogroups.com>, "ShaanSe_Group@yahoogroups.com" <ShaanSe_Group@yahoogroups.com>, "Shaheen_Poetry_World@yahoogroups.com" <Shaheen_Poetry_World@yahoogroups.com>, "Shaheenz-com@yahoogroups.com" <Shaheenz-com@yahoogroups.com>, "Shaheenz_Poetry_Images@yahoogroups.com" <Shaheenz_Poetry_Images@yahoogroups.com>, "Shayarie_iShq_MoHabbat@yahoogroups.com" <Shayarie_iShq_MoHabbat@yahoogroups.com>, "Silent_Lovely@yahoogroups.com" <Silent_Lovely@yahoogroups.com>, "simple-islam@yahoogroups.com" <simple-islam@yahoogroups.com>, "Touch_Underworld@yahoogroups.com" <Touch_Underworld@yahoogroups.com>, "Tere_Tamana_Ha@yahoogroups.com" <Tere_Tamana_Ha@yahoogroups.com>, "Tere_ishq_Main@yahoogroups.com" <Tere_ishq_Main@yahoogroups.com>, "The-Karachi-World@yahoogroups.com" <The-Karachi-World@yahoogroups.com>, "To_Touch_The_Heart@yahoogroups.com" <To_Touch_The_Heart@yahoogroups.com>, "Touch_Last_Wish@yahoogroups.com" <Touch_Last_Wish@yahoogroups.com>, "the-criterion-world@yahoogroups.com" <the-criterion-world@yahoogroups.com>
Cc: "Touch_Underworld@yahoogroups.com" <Touch_Underworld@yahoogroups.com>, "Tere_Tamana_Ha@yahoogroups.com" <Tere_Tamana_Ha@yahoogroups.com>, "Tere_ishq_Main@yahoogroups.com" <Tere_ishq_Main@yahoogroups.com>, "The-Karachi-World@yahoogroups.com" <The-Karachi-World@yahoogroups.com>, "Touch_Last_Wish@yahoogroups.com" <Touch_Last_Wish@yahoogroups.com>, "the-criterion-world@yahoogroups.com" <the-criterion-world@yahoogroups.com>, "V_Hina@yahoogroups.com" <V_Hina@yahoogroups.com>, "WoWToWoW@yahoogroups.com" <WoWToWoW@yahoogroups.com>, "wazirabad7@msn.com" <wazirabad7@msn.com>, "world_of_true_friend@yahoogroups.com" <world_of_true_friend@yahoogroups.com>, "worldmalayaliclub@yahoogroups.com" <worldmalayaliclub@yahoogroups.com>, "Yaadein_Meri@yahoogroups.com Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>, "Youthfun@yahoogroups.com" <Youthfun@yahoogroups.com>, "younique_group@yahoogroups.com" <younique_group@yahoogroups.com>
From: saba sagar <gulerana43@yahoo.com>
Date: 2013/7/27
Subject: [] زکوٰۃ
To: "notavailables@yahoogroups.com" <notavailables@yahoogroups.com>, "NICEpoetry_Group@yahoogroups.com" <NICEpoetry_Group@yahoogroups.com>, "NasreeN-GrouP@yahoogroups.com" <NasreeN-GrouP@yahoogroups.com>, "PakistanWritersClub-Riyadh@yahoogroups.com" <PakistanWritersClub-Riyadh@yahoogroups.com>, "Pehli_Nazar_Ka_Pyaar@yahoogroups.com" <Pehli_Nazar_Ka_Pyaar@yahoogroups.com>, "Pindi-Islamabad@googlegroups.com" <Pindi-Islamabad@googlegroups.com>, "pakistan-my-quest@yahoogroups.com" <pakistan-my-quest@yahoogroups.com>, "publishyourself@yahoogroups.com" <publishyourself@yahoogroups.com>, "queen_of_roses@yahoogroups.com" <queen_of_roses@yahoogroups.com>, "Rukhsana@yahoogroups.com" <Rukhsana@yahoogroups.com>, "raynbow@yahoogroups.com" <raynbow@yahoogroups.com>, "SALMANRIZWAN@yahoogroups.com" <SALMANRIZWAN@yahoogroups.com>, "SanaM_O_SanaM@yahoogroups.com" <SanaM_O_SanaM@yahoogroups.com>, "ShaanSe_Group@yahoogroups.com" <ShaanSe_Group@yahoogroups.com>, "Shaheen_Poetry_World@yahoogroups.com" <Shaheen_Poetry_World@yahoogroups.com>, "Shaheenz-com@yahoogroups.com" <Shaheenz-com@yahoogroups.com>, "Shaheenz_Poetry_Images@yahoogroups.com" <Shaheenz_Poetry_Images@yahoogroups.com>, "Shayarie_iShq_MoHabbat@yahoogroups.com" <Shayarie_iShq_MoHabbat@yahoogroups.com>, "Silent_Lovely@yahoogroups.com" <Silent_Lovely@yahoogroups.com>, "simple-islam@yahoogroups.com" <simple-islam@yahoogroups.com>, "Touch_Underworld@yahoogroups.com" <Touch_Underworld@yahoogroups.com>, "Tere_Tamana_Ha@yahoogroups.com" <Tere_Tamana_Ha@yahoogroups.com>, "Tere_ishq_Main@yahoogroups.com" <Tere_ishq_Main@yahoogroups.com>, "The-Karachi-World@yahoogroups.com" <The-Karachi-World@yahoogroups.com>, "To_Touch_The_Heart@yahoogroups.com" <To_Touch_The_Heart@yahoogroups.com>, "Touch_Last_Wish@yahoogroups.com" <Touch_Last_Wish@yahoogroups.com>, "the-criterion-world@yahoogroups.com" <the-criterion-world@yahoogroups.com>
Cc: "Touch_Underworld@yahoogroups.com" <Touch_Underworld@yahoogroups.com>, "Tere_Tamana_Ha@yahoogroups.com" <Tere_Tamana_Ha@yahoogroups.com>, "Tere_ishq_Main@yahoogroups.com" <Tere_ishq_Main@yahoogroups.com>, "The-Karachi-World@yahoogroups.com" <The-Karachi-World@yahoogroups.com>, "Touch_Last_Wish@yahoogroups.com" <Touch_Last_Wish@yahoogroups.com>, "the-criterion-world@yahoogroups.com" <the-criterion-world@yahoogroups.com>, "V_Hina@yahoogroups.com" <V_Hina@yahoogroups.com>, "WoWToWoW@yahoogroups.com" <WoWToWoW@yahoogroups.com>, "wazirabad7@msn.com" <wazirabad7@msn.com>, "world_of_true_friend@yahoogroups.com" <world_of_true_friend@yahoogroups.com>, "worldmalayaliclub@yahoogroups.com" <worldmalayaliclub@yahoogroups.com>, "Yaadein_Meri@yahoogroups.com Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>, "Youthfun@yahoogroups.com" <Youthfun@yahoogroups.com>, "younique_group@yahoogroups.com" <younique_group@yahoogroups.com>
زکوٰۃ
قرآن نے مسلمانوں کو مذہب نہیں دیا دین عطا فرمایا۔مذہب کا تو لفظ ہی غیر قرآنی ہےاور یہ لفظ قرآن میں کہیں استعمال نہیں کیا گیا۔آج کی اصطلاح میں دین کے معنی نظامِ معاشرت(سوشل آرڈر) یا نظامِ مملکت (سسٹم آف اسٹیٹ) ہیں۔قرآن توحید کا سبق سکھاتا ہے جسکا مفہوم انسان کی موجودہ اور آنے والی زندگی سے متعلق وہ قوانین ہیں جنکا سرچشمہ ایک ہی ہے اسلئے ان میں تفریق ، ثنویت پر مبنی ہے اور قرآن کی رُو سے شرک ہے۔بنا بریں ،دین اسلامی زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے۔اور اس میں "قیصر اور اللہ" کے حصوں کی تفریق زمانہ قبل از اسلام کے مذہبی تصور کی پیدا کردہ ہے۔اسلام اس تفریق کو مٹانے کے لئے آیا تھا لیکن جب مسلمانوں میں ملوکیت آگئی تو انہوں نے "قیصر اور اللہ"کی مملکتوں کو پھر سے الگ کر دیا۔دنیا اور مذہب کی یہی ثنویت (ڈوول ایزم) اُس وقت سے آج تک مسلمانوں میں چلی آرہی ہے۔چنانچہ اس وقت بھی جو کچھ عام طور پر مذہب کے نام سے کیا جارہا ہے یا جو کچھ کرنے کے ارادے ظاہرکئے جاتے ہیں وہ بھی اسی تفریقی مسلک کے شاہد ہیں۔لہٰذا جب تک اس ثنویت کو ذہنوں سے دور نہیں کیا جائے گا نہ تو اسلام کے متعلق صحیح تصور قائم ہوسکے گا اور نہ ہی ہماری عملی دنیا میں صحیح اسلامی قوانین رائج ہوسکیں گے۔
صلوٰۃ کی طرح زکوٰۃ کا قرآنی مفہوم بھی اسی صورت میں سمجھ آسکتا ہے جب دین سے متعلق قرآن کے اس صحیح تصور کو سامنے رکھا جائے۔
دین کا بنیادی تصور یہ ہے کہ دنیا میں ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس کی رو سے ہر فردِ انسانی کے لئے اس کی مضمر صلاحیتوں کے مکمل طور پر نشو ونما پانے کے مواقع یکساں طور پر موجود ہوں۔اس نظام کو قرآنی مفہوم میں نظامِ ربوبیت کہا جاتا ہے۔اور جو وحدتِ خالق اور وحدتِ خلق کے محکم اصول پر مبنی ہے۔اس قسم کا نظامِ ربوبیت اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک رزق کے تمام سر چشمے اُس جماعت کے ہاتھ میں نہ ہوں جو اس قرآنی نظام کے قیام کی ذمہ دار ہے۔اس لئے اس جماعت کے لئے تمکن فی الارض ناگزیر ہے۔یہی وہ منشاء اور غایت ہے جس کے لئے قرآن چاہتا ہے کہ اسلامی حکومت وجود میں آئے۔یعنی اسلامی حکومت کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے دائرۂ حفاظت میں بسنے والے تمام انسانوں کی ربوبیت (ان کی تمام مضمر صلاحیتوں کے برومند ہونے) کے لئے پورے پورے اسباب و ذرائع مہیا کرے۔ یہ ایک محکم اصول ہے جسے قرآن نے اسلامی حکومت کے لئے بطور اساس متعین کر دیا ہے۔اور جس میں زمان و مکان کی تبدیلی سے کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔اس اصول کو عملی طور پر کیسے متشکل کیا جائے گا ، اس کا تعلق زمان اور مکان کے بدلنے والے حالات سے ہے۔یعنی ہر زمانے کے مسلمان اپنے اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق اس اصولی مقصد کے حصول کے لئے عملی جزئیات خود متعین کرینگے۔قرآن کا اسلوبِ ہدایت ہی یہ ہے کہ اس نے (بجز چند مستثنیات کے) اسلامی نظام کے لئے صرف اصول متعین کئے ہیں۔ان کی جزئیات متعین نہیں کیں۔اس لئے اس کے اصول محکم اساس پر مبنی ہیں جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔لیکن ان اصولوں کی جزئیات مختلف حالات کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ ان بدلنے والی جزئیات کو شریعت کہا جاتا ہے۔اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ شریعت کسی جامد یا غیر متبدل مجموعۂ قوانین کا نام نہیں بلکہ ہر وہ مجموعۂ قوانین (قرآنی اصولوں کے تابع مدون کردہ جزئیات) جو کسی ایک زمانے کی قرآنی حکومت اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق قرآنی اصولوں کی روشنی میں مدون کرے۔اس نظامِ حکومت کی شریعت کہلائے گی۔ان جزئیات کے مدون کرنے میں ہر زمانے کی اسلامی حکومت ان جزئیات سے مدد لے سکتی ہےجو پہلے دور کی کسی اسلامی حکومت نے اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق مدون کی تھیں۔یعنی سابقہ دور کی شریعت، بعد کے دور کی اسلامی حکومت کے لئے بطور نظائر(پریسیڈینس) کام دے گی۔قرآن کے ابدی اصولوں کی روشنی میں سب سے پہلی حکومت رسول اللہ ﷺ نے قائم کی اور آپ کے بعد آپ کے خلفائے حقہ نے ۔اس اسلامی حکومت نے اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق قرآنی اصولوں کی جزئیات خود متعین کیں۔اگر یہ سلسلۂ خلافت اسی طرح قائم رہتا تو ہر دور کے تقاضوں کے مطابق تدوینِ شریعت کا یہ سلسلہ بھی جاری رہتا لیکن وہ دور جلد ختم ہوگیا اور اس کے بعد مسلمانوں میں ملوکیت آگئی جس میں رفتہ رفتہ امورِ دنیاوی کو حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا اور مذہبی امور کو اربابِ مذہب کے سپرد کر دیا۔ان حکومتوں نے بھی اپنی ضروریات کے لئے قوانین مرتب کرائے اور یہ قوانین اس وقت کے لئے شریعت ِ اسلامی قرار پائے۔لیکن دین کو دنیا سے الگ کر دینے سے نظامِ اسلامی کی اصل میں خرابی آگئی اور ایسے قوانین بھی مرتب ہونے شروع ہوگئے جو قرآن کی واضح تعلیم کے خلاف تھے۔اب مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ جہاں جہاں ان کی اپنی حکومتیں ہیں امورِ سلطنت سے متعلق وہ حکومتیں اپنی منشا کے مطابق قوانین مرتب کرتی ہیں لیکن امورِ مذہب سے متعلق جسے پرسنل لاء کہا جاتا ہے، مفتیوں سے فتاویٰ لے لئے جاتے ہیں اور جہاں ان کی حکومت نہیں وہاں یہی فتاویٰ انفرادی طور پر صادر ہوتے رہتے ہیں۔
اسی پس منظر کی روشنی میں اب زکوٰۃ کے اہم مسئلہ پر غور کیجئے۔قرآن نے ان اسباب و ذرائع کو جن کی مدد سے اسلامی حکومت نوع ِ انسانی کی ربوبیت کا انتظام کریگی، زکوٰۃ کی جامع اصطلاح سے تعبیر کیا ہے۔چنانچہ وہ کہتا ہے:- الذین ان مکنھم فی الارض اقامو الصلوٰۃ و اٰتو الزکوٰۃ (22/41)"وہ لوگ کہ جنہیں جس وقت ہم زمین میں حکومت عطا کریں گے تو ان کا فریضہ اقامت الصلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ ہوگا"۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق دوسری جگہ فرمایا ہے کہ والذین ھم للزکوٰۃ فاعلون (23/4) یعنی ان کی خصوصیت یہ ہوگی کہ وہ زکوٰۃ کے لئے جدو جہد کرینگے(فاعلون)۔اگر سورۂ حج کی آیت (22/41) کے معنی یہ لئے جائیں کہ جب ان لوگوں کی اپنی حکومت ہوجائے گی تو یہ آمدنی کا اڑھائی فیصد حصہ خیرات کے کاموں میں صرف کریں گے تو یہ بے معنی سی بات ہوجاتی ہے۔اس لئے کہ اپنی آمدنی سے 2 ½ فیصد حصہ خیرات کے کاموں میں صرف کرنے کے لئے اپنی حکومت کی کیا ضرورت ہے؟ یہ خیرات تو ہم انگریزوں کی غلامی کے دور میں بلا روک ٹوک کیا کرتے تھے۔اس آیۂ جلیلہ کا صحیح مفہوم یہی ہے کہ غیر قرآنی حکومت میں مقصود حکومت کا اپنا فائدہ ہوتا ہے لیکن قرآنی حکومت میں مقصد پیشِ نظر نوعِ انسانی کی نشو و ارتقاء (زکوٰۃ) ہوتا ہے۔
اس آیت میں اقامتِ صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ اکٹھا آیا ہے اور قرآن کریم میں یہ دونوں چیزیں عام طور پر اکٹھی بیان ہوتی ہیں۔صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا باہم تعلق سورۂ ہود کی آیت(11/87)ملاحظہ فرمایئے جس میں قومِ شعیب نے کہا تھا کہ کیا تمہاری صلوٰۃ ہمیں اس کی بھی اجازت نہیں دیتی کہ ہم اپنے اموال کو اپنی مرضی کے مطابق صرف کر سکیں(غور کیجئےیہ آیت نظامِ صلوٰۃ کس طرح معاشی نظام کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے)۔لفظ زکوٰۃ کا مادہ زکا ہے جس کے معنی نشو ونما(گروتھ) کے ہیں۔ایتائے زکوٰۃ یعنی زکوٰۃ بہم پہنچانے کے معنی ہوئے سامانِ نشو ونما بہم پہنچانا۔بنابریں، زکوٰۃ سے مراد ہوئے وہ تمام اساب و ذرائع جن کے ذریعہ اسلامی حکومت نوعِ انسانی کے تزکیہ(گروتھ) یا ربوبیت (ڈویلپمنٹ) کا انتظام کرے گی۔اس سے ظاہر ہے کہ قرآنی حکومت کا کام افراد ِ ملت کو زکوٰۃ (سامانِ نشو ونما) دینا ہوگا، اُن سے زکوٰۃ لینا نہیں ہوگا۔ لیکن ایتائے زکوٰۃ(سامانِ نشو ونما دینے) کیلئے حکومت کو آمدنی(ریوینیو) کی ضرورت ہوگی۔اس لئے اسلامی حکومت کی تمام آمدنی ذرائع زکوٰۃ بن جائے گی اور اس آمدنی سے نظامِ ربوبیت قائم کیا جائے گا۔اس اعتبار سے ملت کا ہر فرد ایتائے زکوٰۃ کی فریضہ ادائیگی میں شریک ہو جائے گا۔ قرآن نےصلوٰۃ اور زکوٰۃ کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے لیکن اس کی تفاصیل کو کہیں متعین نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اصولی نظام کی روشنی میں جس کا ذکراوپر کیا جا چکا ہے ان تفاصیل کے متعین کرنے کی ضرورت بھی نہ تھی، اس لئے کہ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا اصول غیر متبدل ہے لیکن اس کی جزئیات ہر زمانے کی ضروریات کے مطابق بدلتی رہیں گی۔لہٰذا آج جو اسلامی حکومت نظامِ ربوبیت کو قائم کرنا چاہے وہ اس مقصد کے حصول کے لئے اپنی مداتِ آمدنی کی جزئیات خود متعین کریگی اور اس طرح حاصل کردہ آمدنی کو ملت کی نشو ونما (زکوٰۃ) پر صرف کرے گی۔یہ جزئیات حکومت کی طرف سے عائد کردہ ہر ٹیکس کی شرحِ نصاب، طریقِ وصولی، نیز اس آمدنی کے مناسب محلاتِ اخراجات وغیرہ سب کو محیط ہوں گی۔ہم ان جزئیات کی تدوین میں اُن جزئیات سے بطور نظائر مدد لیں گے جو اس سے پہلے کسی اسلامی حکومت نے اپنے دور کے لئے متعین کی تھیں، اسی طرح ہماری متعین کردہ جزئیات ہماری شریعت بن جائیں گی بشرطیکہ ان کی اساس قرآن کے غیر متبدل اصولوں پر ہو لیکن اگر یہی آمدنی قرآنی منشاء کے خلاف وصول کی جائے یا اسے نظامِ ربوبیت کے خلاف مقاصد میں صرف کیا جائے تو یہ سب کچھ غیر شرعی ہوجائے گا۔
قرآن نے زکوٰۃ کے علاوہ ایک اصطلاح صدقات کی بھی استعمال کی ہے اور اس کے لئے اس نے خرچ کی مدات کا بھی ذکر کیا ہے جو حسبِ ذیل ہیں:
انما الصدقٰت للفقراءِ والمساکین والعاملین علیھا والمو تفۃ قلوبھم و فی الرّقاب و الغارمین و فی سبیل اللہ وابن السبیل (9/60)صدقات کا مصرف یہ ہے کہ وہ فقرا و مساکین کو دئے جائیں اور ان لوگوں کو جو تحصیلِ صدقات میں کام کریں اور جن کے قلوب کی تالیف مقصود ہو۔نیز قیدیوں یا غلاموں کے رہا کرانے میں اور تاوان زدہ یا مقروض لوگوں کا تاوان یا قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں مسافروں کے لئے۔
یہ حقیقت بادنیٰ تعمق سمجھ میں آتی ہے کہ جن جن ضروریات کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ ایسی ہیں جو ہنگامی حوادث یا اتفاقی حالات کے ماتحت پیدا ہوتی ہیں اور اسلامی سوسائٹی جس کا فریضہ ہی ربوبیت ِ عامہ ہے، کی مستقل ضروریات قرار نہیں پا سکتیں، مثلاً پناہ گزینوں کا مسئلہ، یا کسی علاقے میں زلزلہ وسیلاب زدگان کی امداد وغیرہ۔ایسی ہنگامی اور غیر متوقع ضروریات کے لئے حکومت کے مستقل بجٹ میں گنجائش(پرو ویژن) نہیں ہوا کرتی۔اس قسم کی ہنگامی ضروریات ہنگامی ٹیکس کے ذریعہ پوری کی جایا کرتی ہیں یا لوگوں کے عطیات سے۔ہمارے ہاں صدقہ کسی بڑی مصیبت کے ٹالنے کے لئے دیا جاتا ہے۔عربوں میں عطیات کے لئے بھی اس لفظ کا استعمال ہوتا تھا۔قرآن میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقات میں عطیات بھی شامل ہیں، اس لئے کہ اس نے صدقات کو علانیہ طور پر دینے کا بھی ذکر کیا ہے اور چپکے سے بھی (2/271)۔نیز یہ بھی کہا ہے کہ اپنے صدقوں کو احسان جتا کر اور جن کی مدد کی گئی ہے ان کی دل آزاری کرکے تعمیر کی جگہ تخریب (باطل) کا ذریعہ نہ بناؤ (2/264) ۔یہ صدقات خواہ ٹیکس کی شکل میں ہوں خواہ عطیات کی صورت میں ان کا وصول کرنا اور خرچ کرنا اجتماعی کام ہے جس کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ صدقات کے وصول کرنے کا واضح حکم قرآن میں موجود ہے (9/103)، اور حکومت ہی کو اس کے صرف کا ذمہ دار ٹہرایا ہے (9/58-60)۔اس قسم کے ہنگامی ٹیکس کی شرح کیا ہونی چاہئے ؟ یا عطیات کی حدود کیا ہونی چاہئیں؟ قرآن اس کا بھی ذکر نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی کوئی حد بندی کی جاسکتی ہے۔مصارف کی فہرست میں البتہ قرآن نے چند مدات کو گنوادیا ہے جن کا ذکر کیا جا چکا ہے اور باقیوں کے متعلق فی سبیل اللہ سے اصولی اشارہ کر دیا ہے۔واضح رہے کہ قرآن ملت کے اجتماعی امور کے متعلق فی سبیل اللہ کی جامع اصطلاح استعمال کرتا ہے۔لہٰذا مصارفِ صدقات میں مختلف مدات کے ساتھ فی سبیل اللہ کے اضافہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جن مدات کا ذکر کیا گیا ہے ان جیسی اورمدات جو ملت کی اس قسم کی ہنگامی ضروریات کے لئے ناگزیر ہوجائیں ان میں شامل ہیں۔اس مقام پر قرآنی تعلیم سے متعلق ایک اور اہم نکتہ کی طرف اشارہ بھی ضروری ہوتا ہے۔اس مقام پر صراحت و وضاحت کی گنجائش نہیں ہے لہٰذا اس کا ذکر صرف اشارۃً ہی ممکن ہوسکےگا۔قرآنی احکام کا اسلوب یہ ہے کہ وہ سوسائٹی کے ارتقائی مدارج کے ساتھ توافق و تطابق رکھتے چلے جاتے ہیں۔مثلاً جب رسول اللہ ﷺ نے دعوتِ اسلام کی ابتدا کی ہے تو اس وقت اسلامی حکومت وجود میں نہیں آئی تھی اس لئے اس زمانے کے احکام اس انداز کے ساتھ تھے جو کسی ایسی سوسائٹی یا معاشرہ میں نافذ العمل ہوسکیں جس میں ہنوز اپنی حکومت قائم نہ ہوسکی ہو۔ حضورؐ کی دعوت اپنے ارتقائی مدارج طے کرتی اس مقام تک پہنچ گئی جہاں ملتِ اسلامیہ نے اپنا نظامِ حکومت قائم کر لیا۔یہ نظام ایک سوسائٹی کے معاشرتی ارتقاء کی آخری کڑی ہوتی ہے۔لہٰذا اس مقام پر ضروری احکام دینے کے بعد دین کی تکمیل ہوگی۔قرآن ان تمام احکام کا مجموعہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں مثلاً صدقات کے متعلق انفرادی احکام بھی ملتے ہیں۔اور حکومتی نظام کے اندر کے احکام بھی، حتیٰ کہ ایسے احکام بھی جن میں حکومت کو کسی قسم کے ٹیکسوں یا عطیوں کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔جن لوگوں کی نگاہ سے قرآنی احکام کا یہ اسلوب اوجھل ہوگیا وہ مختلف احکام کے تضاد سے گھبرا اٹھے اور اس مشکل کے حل کے لئے نسخ آیات کا عقیدہ قائم کر لیا۔یعنی انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ جو احکام بعد کے ارتقائی مدارج سے متعلق نازل ہوئے تھے انہوں نےابتدائی مراحل سے متعلق نازل شدہ احکام کو منسوخ کر دیا ہے۔اگر ان کے سامنے قرآنی احکام کا وہ اسلوب ہوتا جو اوپر بیان کیا گیا ہے تو انہیں کوئی ایسی مشکل پیش نہ آتی جس کے لئے ناسخ و منسوخ کا غیر قرآنی عقیدہ وضع کرنا پڑا۔قرآن کی اکملیت اسی میں ہے کہ وہ انسانی معاشرہ کی ہر ارتقائی حالت سے متعلق مناسب احکام اپنے اندر رکھتا ہے جو معاشرہ یا سوسائٹی جس وقت اپنے آپ کو قرآنی نظام کے تابع لانا چاہے قرآن میں اس وقت کے ارتقائی مقام کے مناسب احکام مل جائیں گے۔
مثلاً ہم تقسیم ہند سے پہلے اپنے معاشرتی ارتقاء میں جس مقام پر تھے قرآن ہمیں اس سے آگے بڑھنے کے اصول دیتا تھا۔تقسیم کے بعد ہم جس حالت میں ہیں اس کے لئے بھی اس کے پاس ہدایت موجود ہے اور اس کے بعد اگر ہم نےاپنی زندگی کو قرآنی نظام کے تابع لانے کا فیصلہ کر لیا توا س کے لئے بھی قرآن میں ضروری اصول اور احکام مل جائیں گے۔اس لحاظ سے قرآن ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور جس مقام سے کوئی سوسائٹی اپنے آپ کو قرآن کے تابع لائے قرآن اسے اس مقام سے آگے جانے کے لئے واضح روشنی عطا کر دیتا ہے اور کوئی مقام ایسا نہیں آتا جہاں پہنچ کر وہ کہہ دے کہ میں مزید ہدایت دینے سے قاصر ہوں۔
زکوٰۃ و خیرات سے متعلق قرآن کی تعلیم کے ماحصل سےہمارے الجھاؤ کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے زکوٰۃ و صدقات کو ایک ہی چیز سمجھ رکھا ہے اور صدقات سے متعلق احکام و تفاصیل کو زکوٰۃ کے احکام قرار دیدیا ہے حالانکہ یہ ظاہر ہے کہ قرآن نے نہایت وضاحت سے ان دو الفاظ کو الگ الگ استعمال کیا ہے۔اگر صدقات سے مراد زکوٰۃ ہی ہوتی تو وہ صدقات کی جگہ زکوٰۃ ہی کا لفظ استعمال کرتا لیکن قرآن پر غور کرنے سےواضح ہوجاتا ہے کہ اس کے نزدیک زکوٰۃ کا تصور صدقات سے الگ ہے۔اسلامی معاشرہ کے ابتدائی مدارج میں صدقات کا عمومی مفہوم خیرات ہی تھا لیکن بعد میں جب نظامِ حکومت قائم ہوگیا تو صدقات سے مراد وہ عطیات وغیرہ ہوگئے جو اسلامی حکومت بعض ہنگامی ضروریات کے لئے طلب کرتی ہے لیکن یہ ہنگامی عطیات ہوں یا دیگر مدات آمدنی ان سب کا سرچشمہ انکے ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ ہم نے وہ نظامِ ربوبیت قائم کرنا ہے جس میں ہر فرد کی مضمر صلاحیتوں کے نشو و ارتقاء کے لئے یکساں مواقع بہم پہنچائے جائیں ۔جب یہ نظام قائم ہوجائے تو پھر عطیات کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔اُس وقت زائد از ضرورت سب کچھ مملکت کی تحویل میں ہوتا ہے جس سے وہ ایتائے زکوٰۃ یعنی نوع انسان کو نشو ونما دینے کا فریضہ ادا کرتی ہے۔
یہ ہے قرآن کے مطابق مختصر الفاظ میں زکوٰۃ اور صدقات کا مفہوم جومیرے ذہن میں آسکا ہے۔اس سے بہتر مفہوم کی گنجائش ہمیشہ باقی رہے گی کہ میں دنیا کا آخری انسان نہیں ہوں۔
__._,_.___
.
__,_._,___
Need Your Comments.....!
For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to http://ca13054d.tinylinks.co
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.