2013/4/27 aapka Mukhlis <aapka10@yahoo.com>
--اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کے نام پر ووٹ مانگنے کا ''جرم''
شاہ نواز فاروقیالیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات سے تین ہفتے قبل فرمایا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہب اور فرقے کے نام پر اور رشوت کے ذریعے ووٹ حاصل کرنا جرم ہوگا اور اس کی سزا تین سال ہوگی۔ غور کیا جائے تو یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کہا جائے کہ مسجد میں نماز پڑھنا' مندر میں بھجن گانا ' گرجے میں تثلیث کا ذکر کرنا اور بازار میں خرید و فروخت کرنا ممنوع ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسجد ہے ہی نماز کے لیے۔ مندر میں بھجن اور کیرتن نہیں ہوگا تو کیا پاپ موسیقی کا مقابلہ ہوگا؟ گرجے میں تثلیث کا ذکر نہیں ہوگا تو کیا الف لیلہ سنائی جائے گی؟ اور بازار میں خریداری نہیں ہوگی تو کیا کرکٹ کھیلی جائے گی؟ اسی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کے نام پر ووٹ نہیں مانگے جائیں گے تو کیا سوشلزم اور سیکولرازم کی بنیاد پر ووٹ مانگے جائیں گے؟ تجزیہ کیا جائے تو فخرالدین جی ابراہیم اور ان کے الیکشن کمیشن کے نزدیک مذہب' فرقے اور رشوت میں کوئی فرق ہی نہیں۔ یعنی الیکشن کمیشن کے نزدیک مذہب کی حیثیت فرقے اور رشوت کے برابر ہے۔ حالانکہ فرقہ پرستی مذہب دشمنی کی ایک صورت ہے۔ فرقے کا لفظ ''فرق'' سے نکلا ہے، یعنی جو لوگ اسلام کے بنیادی عقائد اور تصورات کے برعکس عقیدہ' تصور یا رائے رکھیں وہ فرقے کی نفسیات میں مبتلا ہیں چنانچہ مذہب کے دائرے سے خارج ہیں۔ اسی طرح رشوت ایک اخلاقی' سماجی اور معاشی جرم ہے اور اسلام کے نزدیک صرف جرم نہیں گناہ بھی ہے' لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے رشوت ' فرقہ پرستی اور اسلام کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ یہ اسلام کی ڈھکی چھپی تضحیک بھی ہے اور غیر علمی اور غیر عقلی روش بھی۔ پاکستان میں اسلام کے نام پر ووٹ مانگنے والے اللہ کے دین کے غلبے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو بالادست کرنے کے لیے ووٹ مانگتے ہیں۔ وہ قرآن اور سنت کے مطابق معاشرے کی تشکیل کے نام پر لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن نے اس عمل کو رشوت اور فرقہ پرستی کے ہم معنی بنا کر اس کے لیے یکساں سزا بھی تجویز کردی ہے۔ لیکن اس بحث کا اصل حوالہ تاریخی ہے۔دنیا کی تاریخ میں مذہب کے نام پر ملک مانگنے کی کوئی مثال موجود نہیں، لیکن پاکستان کا مطالبہ ہی مذہب کے نام پر کیا گیا ۔ کہا گیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور ان کے درمیان اصل فرق ان کے مذہب کا ہے۔مذہب کے فرق سے دونوں قوموں کی تہذیب اور تاریخ بھی مختلف ہوگئی ہے۔ مثلاً ہندو جس گائے کی پوجا کرتے ہیں مسلمان اس کا گوشت کھاتے ہیں، اور مسلمانوں کی تاریخ کے ہیروز ہندوئوں کے ولن ہیں۔ بعض سیکولر اور لبرل لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے مطالبے کے اصل محرکات سیاسی اور معاشی تھے۔ لیکن مسلمان اگر جداگانہ سیاست کرنا چاہتے تھے اور انہیں اپنا معاشی مفاد عزیز تھا تو اس کی بنیاد بھی مذہب پر تھی، ورنہ دنیا میں ایک قوم کی دو سیاستیں اور دو معیشتیں نہیں ہوتیں۔ ہندوستانی قوم کی سیاست کی ترجمان کانگریس تھی اور اصولی اعتبار سے مسلمانوں کو مسلم لیگ قائم نہیں کرنی چاہیے تھی، لیکن کسی اور نے کیا سرسید تک نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنا سیاسی مفاد عزیز ہے تو وہ اپنی جماعت بنائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مشورہ جغرافیہ' نسل اور زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ مذہب ہی کی بنیاد پر دیا گیا تھا اور مسلم لیگ کا قیام مذہب کی بنیاد پر سیاست کا کھلا اعلان تھا۔ یہ اعلان بالآخر قیام پاکستان کے مطالبے تک پہنچا۔ اتفاق سے مسلم لیگ کی جدوجہد میں ایک ایسا مقام بھی آیا کہ 1946ء میں اس نے مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں سے ووٹ بھی مانگے، اور اسے 1946ء کے انتخابات میں مذہب کی وجہ سے ایسی غیر معمولی کامیابی ملی کہ کانگریس اور انگریز دونوں مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد ترجمان تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ 1940ء میں مذہب کے نام پر ملک مانگنا جائز تھا تو 2013ء میں مذہب کے نام پر ووٹ مانگنا جرم کیسے ہوسکتا ہے؟ اور اگر 1946ء میں مذہب کے نام پر ووٹ مانگا جاسکتا تھا تو 2013ء میں مذہب کے نام پر ووٹ کیوں نہیں مانگا جاسکتا؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن کا مذکورہ اعلان قیام پاکستان کی پوری تاریخ کے خلاف اور اسے ملیامیٹ کردینے والا ہے، اور یہ صرف مذہب نہیں بلکہ تاریخ سے بھی غداری ہے۔ لیکن مسئلہ صرف تاریخ کا نہیں ہے۔
اسلام کا مزاج یہ ہے کہ اس کے دائرے میں ہر چیز خدا اور مذہب کے لیے کی جاتی ہے۔ مسلمان جہاد کی صورت میں جنگ کرتا ہے تو اللہ اور دین کے لیے۔ مسلمان امن قائم کرتا ہے تو اللہ اور اس کے دین کے لیے۔ مسلمان کھانا کھاتا ہے تو اللہ کا نام لے کر ' پانی پیتا ہے تو اللہ کا نام لے کر' سوتا ہے تو اللہ کا نام لے کر' جاگتا ہے تو اللہ کا نام لے کر، یہاں تک کہ وہ چھینکتا اور جماہی بھی لیتا ہے تو اللہ کا نام لے کر۔ سوال یہ ہے کہ ایسے مذہب کے دائرے میں ووٹ بھی اللہ کے لیے کیوں نہ مانگا جائے؟ اور اللہ کے لیے ووٹ مانگنا ہی دین کے لیے ووٹ مانگنا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن کو اعلان کرنا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو شخص مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہ مانگے اسے کم از کم تین سال کی سزا دی جائے گی۔ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین خیر سے ''دین کا فخر'' ہیں، مگر وہ خود بھی دین پر شرمندہ ہورہے ہیں اور پوری قوم کو بھی دین کے حوالے سے شرمندہ ہونے پر مائل کررہے ہیں۔ لیکن اس معاملے کے کچھ پہلو اور بھی ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو عوامی سیاست کا سب سے مشہور نام ہیں، اور وہ سیکولر بھی تھے اور لبرل بھی، مگر انہوں نے بھی سیاست اسلام کے نام پر کی اورایک طرح سے اسلام کا نام لے کر ووٹ مانگے۔ اس کی شہادت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی فلسفے کو سوشلزم کا نام نہیں دیا بلکہ انہوں نے اسے ''اسلامی سوشلزم'' قرار دیا۔ اس لیے کہ انہیں معلوم تھا کہ مذہب اس قوم کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے اوریہ سوشلزم کے ساتھ رومانس بھی اسلام کے بغیر نہیں کرے گی۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کہتی رہی ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ اس فلسفے میں دین کی اہمیت اگرچہ اضافی ہے مگر دین کا تصور ایک نمائشی عنصر کے طور پر پیپلزپارٹی کی سیاست کا حصہ رہا ہے۔ لیکن بھٹو صاحب کی اس سیاست کے فخرالدین صاحب بھی بڑے قائل رہے ہوں گے۔ ہمارے ملک میں جس اتحاد نے میاں نوازشریف کو پنجاب کی سطح سے اٹھا کر قومی سطح کا رہنما بنایا اس کا نام ''اسلامی جمہوری اتحاد'' تھا۔ لیکن اسلامی جمہوری اتحاد کے تجربے کے دوران اور بعد میں بھی کسی کو خیال نہ آیا کہ مذہب کے نام پر ووٹ مانگے گئے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ مذہب کے نام پر صرف مذہبی جماعتیں ہی ووٹ نہیں مانگتیں، سیکولر کہلانے والی جماعتیں بھی دراصل مذہب کے نام پر ووٹ کا مطالبہ کرتی ہیں۔ لیکن اس بات کا مفہوم کیا ہے؟ مذہب عقیدت یا جذبے کی شدت اور خدا مرکز ہونے کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کتنی ہی ایسی جماعتیں ہیں جنہوں نے قوم' زبان اور نسل کو اپنا مذہب بنایا ہوا ہے۔ ایم کیو ایم ایک قوم پرست جماعت ہے اور اس کی ساری سیاست قومیت کی نفسیات، اس کی شدت اور اس کی عصبیت کے گرد گھومتی ہے۔ اے این پی بھی ایک قوم پرست جماعت ہے اور اس کا معاملہ بھی ایم کیو ایم والا ہے۔ ملک میں ذاتوں اور برادریوں کے بت بھی انتخابات کے موقع پر خوب ''پوجے'' جاتے ہیں اور اس پوجا پاٹ میں مذہبی رنگ موجود ہوتا ہے۔ جہاں تک ہماری اکثر بڑی سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے تو ان کی نوعیت ''سیاسی فرقہ پرستوں'' جیسی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارا ملک ایک طویل عرصے تک پیپلزپارٹی کے حامیوں اور مخالفوں میں تقسیم رہا ہے، مگر ہم نے آج تک کسی کو کہتے نہیں سناکہ یہ صورت حال ملک و قوم کے لیے ضرر رساں ہے اور جو شخص قومیت اور لسانیت کو مذہب بنانے والوں اور سیاسی فرقہ پرستوں کو ووٹ دے گا وہ غلط کرے گا اور اس کی سزا تین سال ہوگی۔ قوم اور زبان کے مذہب بن جانے کی بات مذاق نہیں ہے۔ اقبال نے کہا ہے ؎
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہےجو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہےاس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ عصر حاضر میں وطن پرستی بھی ایک طرح کا مذہب بن گئی ہے اور لوگ اپنے ملک سے ویسی ہی عقیدت وابستہ کرتے ہیں جیسی عقیدت صرف خدا کا حق ہے۔ کارل مارکس کہنے کو لا مذہب آدمی تھا اور اس کے نظریات مذہب کی ضد تھے، لیکن سوشلسٹوں نے مارکس کے ساتھ ویسی ہی عقیدت اور محبت وابستہ کردی تھی جیسی عقیدت اور محبت پیغمبروں کے ساتھ وابستہ کی جاتی تھی۔ اس کی کتاب ''داس کیپتال'' میں کوئی ماورائیت نہیں تھی مگر سوشلسٹ اسے ایک ''آسمانی کتاب'' کا درجہ دیتے تھے اور مارکسزم خود سوشلسٹوں کا مذہب تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کی تمام قوم پرست جماعتیں ''مذہب'' ہی کے نام پر سیاست کررہی ہیں۔ ان میں اور حقیقی مذہبی جماعتوں میں فرق یہ ہے کہ مذہبی جماعتیں سچے مذہب کی سیاست کررہی ہیں اور قوم پرست جماعتیں جھوٹے اور انسانی ساختہ مذہب کی سیاست کررہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے الیکشن کمیشن کو اگر سچے مذہب اور سچی مذہبیت سے چڑ ہے تو اسے جھوٹے مذاہب اور چھوٹی مذہبیت سے بھی محبت نہیں ہونی چاہیے اور اسے اعلان کرنا چاہیے کہ قوم' زبان' صوبے' نسل اور ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ مانگنا جرم ہوگا اور اس کی سزا تین سال ہوگی۔
شاہنواز فاروقی
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Islamabadianz" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to islamabadianz+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/groups/opt_out.
Need Your Comments.....!
For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to http://ca13054d.tinylinks.co
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.