2013/3/21 aapka Mukhlis <aapka10@yahoo.com>
خواتین کے خلاف جرائم ۔اسباب اور تدارکڈاکٹر رفعتہمارے ملک میں اِس وقت ایک اہم بحث جاری ہے۔ اِس بحث کا موضوع وہ جرائم ہیں جن کا نشانہ خواتین بنتی ہیں۔ منفی رُخ سے دیکھاجائے تو بحث کابنیادی سوال یہ ہے کہ خواتین کی حفاظت کس طرح ہو لیکن وسیع اور مثبت تناظر میں غور کیا جائے تو سوال یہ ہوگا کہ ایک پاکیزہ معاشرہ کس طرح وجودمیں لایا جائے۔ اِسلام اِس موضوع کو وسیع تناظر میں دیکھتا ہے۔ اسلام کے مطابق پاکیزہ معاشرے کی جانب پیش قدمی کے لیے تین سطحوں پر کوششدرکار ہے۔﴿الف﴾ افکار، اقدار اور تصورِ کائنات﴿ب﴾معاشرتی آداب اور﴿ج﴾ قانون۔ان میں سے کسی پہلو کو بھی نظر انداز کردیا جائے تواندیشہ ہے کہ پاکیزہ معاشرے کی جانب پیش رفت جاری نہ رہ سکے گی۔ ظاہر ہے کہ اِن تینوں پہلوؤں میں بنیادی مقام تصورِکائنات اور افکار واقدار کوحاصل ہے۔ اگر تصور کائنات حقیقت پر مبنی نہ ہو یا ذہنوں میں راسخ نہ ہو تو معاشرتی آداب کااحترام ختم ہونے لگتا ہے۔ اور ان آداب کی حیثیت محضرسم کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اِسی طرح وہی قانونی نظام کامیاب ہوسکتا ہے جس کو پائیدار بنیادوں پر استوار کیاگیا ہو۔ اگر قانون درست تصورِ کائنات پر مبنیہو تو دِل اُس کااحترام کرنے پر مجبور ہوں گے اور سماج میں اس کے نفاذ میں کوئی بڑی دُشواری پیش نہ آئے گی۔ اس کے برعکس اگر قانون کا رِشتہتصورِکائنات سے کٹ جائے تو اُس کا احترام دِلوں میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ اُس کانافذ کرنا آسان نہ ہوگا۔تصورِ الٰہاِسلام کائنات کا جو تصور پیش کرتا ہے، اُس کے مطابق کائنات اللہ وحدہ لاشریک کی تخلیق کردہ ہے۔ اور وہی اِس کائنات کا مدبّراور حاکم ہے۔ اس کےخلق اور حکمرانی میں کوئی اُس کا شریک نہیں ہے:اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْیَعْدِلُونَOہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن طِیْنٍ ثُمَّ قَضَیٰٓ أَجَلاً وَأَجَلٌ مُّسمًّی عِندَہ، ثُمَّ أَنتُمْتَمْتَرُوْنَOوَہُوَ اللّٰہُ فِیْ السَّمٰوَاتِ وَفِیْ الأَرْضِ یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَجَہْرَکُمْ وَیَعْلَمُ مَاتَکْسِبُونَO﴿انعام: ۱-۳﴾''سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، تاریکیوں اور روشنی کو بنایا۔ اِس کے باوجودکافر اپنے رَب کے ساتھ دوسروں کو برابر کیے دیتے ہیں۔ وہی ہے جس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا پھر تمھارے لیےایک مدت مقررکردی اور ایک مدت اور بھی ہے جو اللہ کے علم میں ہے۔ پھر بھی تم شک کرتے ہو۔ اور وہی ہےاللہ آسمانوں میں اور زمین میں۔ تمھارے کھُلے اور چھپے سب احوال سے باخبر ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔''مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اِن آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:''تمام آسمانوں اور زمین میں تنہا وہی معبود، مالک، بادشاہ، متصرف اور مدبر ہے اور یہ نامِ مبارک ﴿اللہ﴾ بھی صرفاُسی کی ذات متعالی الصفات کے لیے مخصوص رہا ہے پھر اوروں کے لیے استحقاقِ معبودیت کہاں سے آیا ؟ تمام زمینوآسمان میں اُسی کی حکومت ہے اور وہ بلاواسطہ ہر کھلی، چھپی چیز اور انسان کے ظاہر وباطن اور چھوٹے بڑے ہر عمل پرمطلع ہے۔ تو عابد کواپنی عبادت و استعانت میں کسی غیر اللہ کو شریک ٹھہرانے کی ضرورت نہیں رہتی ۔''اِس تصور کا عین تقاضا ہے کہ اِنسان محض اللہ کی عبادت کرے اور کسی کو اُس کے ساتھ شریک نہ کرے۔وَاعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہِ شَیْْئًا۔﴿النّساء : ۶۳﴾''اللہ کی عبادت کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔''تنہا اللہ کی عبادت سے انسان کی شخصیت میں بلندی پیدا ہوتی ہے جو اُس کو برائیوں سے بچاتی اور اخلاقی خوبیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ اِس کے برخلافشرک اِنسان کو پستی کی طرف لے جاتا ہے۔حُنَفَاءَ لِلَّـهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُأَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ ﴿الحج:۳۱﴾''ایک اللہ کے ہو کر رہو۔ اور مشرک نہ بنو۔ اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ گویا آسمان سے گر پڑا۔ پھر اُس کوپرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کودُور کے کسی مکان میں پھینک دے گی۔''مولاناشبیر احمد عثمانیؒ اِس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:''توحید نہایت اعلیٰ اور بلند مقام ہے۔ اس کو چھوڑکر جب آدمی کسی مخلوق کے سامنے جھکتا ہے تو خود اپنے کو ذلیل کرتاہے اور آسمان توحید کی بلندی سے پستی کی طرف گرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اِس قدر اونچائی سے گر کر زندہ بچ نہیں سکتا۔اَب یا تو اہوائ وافکار ردّیہ کے مردار خور جانور چاروں طرف سے اُس کی بوٹیاں نوچ کھائیں گے یا شیطانِ لعین ایکتیز ہوا کے جھکڑ کی طرح اُس کو اڑا لے جائے گا اور ایسے گہرے کھڈ میں پھینکے گا جہاں کوئی ہڈی پسلی نظر نہ آئے ۔''اسلام نے اللہ کا جو تصور پیش کیا ہے، اُس کا اہم پہلو اُس کے اسمائے حُسنیٰ ہیں۔ اِن ناموں کا استحضار انسان کے سامنے ایک اعلیٰ ترین معیار پیش کرتاہے،جو بہترین صفات کا جامع ہے۔هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ ؒ هُوَ اللَّـهُالَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚسُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ ؒ هُوَ اللَّـهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚيُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ؒ ﴿الحشر:۲۲-۲۴﴾''وہ اللہ ہے اُس سوا کوئی معبود نہیں پوشیدہ اور ظاہر کاجاننے والا ، وہ رحمان ورحیم ہے۔ بادشاہ ہے۔ سب عیبوں سےپاک، سالم، امان دینے والا، پناہ میں لینے والا ہے، زبردست، جبّار اور صاحبِ عظمت ہے۔ پاک ہے اللہ اُس شرکسے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ وہ اللہ ہے بنانے والا نکال کھڑا کرنے والا۔ صورت گری کرنے والا، اُس کے لیے سارےاچھے نام ہیں۔ اُس کی تسبیح کرتی ہے ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔ وہ زبردست اور حکیم ہے۔''اللہ کی صفات انسان کے سامنے لانے کے بعد ، اسلام انسان کو ترغیب دیتا ہے کہ ﴿اِنسانی حد تک﴾ وہ اِن صفات سے اپنے کو متصف کرنے کی کوششکرے:صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً وَنَحْنُ لَہ، عَابِدُوْنَ O ﴿البقرہ:۸۳۱﴾''﴿کہو﴾ اللہ کا رنگ اختیار کرو، اُس کے رنگ سے اچھا کس کا رنگ ہوگا اور ہم اُسی کی بندگی کرنے والے ہیں۔''تاریخ کے مختلف ادوار میں مشرکین نے بہت سے خیالی معبود ایجاد کیے اور قوت متخیلہ سے کام لے کر ان خیالی معبودوں کی سیرت (Mythology)مرتب کی۔ بالعموم اِن قصّے کہانیوں میں مشرکین کے معبودوں کی بہت گھٹیا سیرت پیش کی گئی ہے۔ چنانچہ ان کے عبادت گزاروں میں گھٹیا صفات کیطرف رجحان ایک فطری امر ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مذہبی جذبات عموماً انسان کو نیکی اور بھلائی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ لیکن جب یہجذبات شرک سے آلودہ ہوجاتے ہیں تو انسان نیکی کے بجائے برائی کی طرف جانے لگتے ہیں۔ پاکیزہ معاشرے کے قیام کے لیے توحید کا تصور ایکسازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ اِس کے برعکس شرک کے زیر سایہ پاکیزگی کا پنپنا مشکل ہے۔تصورِ انساناِسلام کے مطابق اِنسان ایک ذمّہ دار ہستی ہے۔ وہ کوئی ادنیٰ مخلوق نہیں ہے۔ بلکہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ تخلیق آدم سے قبل اِنسان کے اِس بلند مقام کا اعلانکیاگیا:وَ وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُفِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ O﴿البقرہ:۳۰﴾''﴿یاد کرو وہ وقت﴾ جب تمھارے رَب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انھوںنے عرض کیا: کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑدے گا اور خوں ریزیاںکرے گا؟ آپ کی حمد وثنا کے ساتھ آپ کی تسبیح تو ہم کرہی رہے ہیں۔ فرمایا میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے۔''انسان کے اِس بلند مقام میں اس کی آزمائش پوشیدہ ہے۔وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَاآتَاكُمْ ۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿الانعام:۱۶۵﴾''اُس نے تم کو زمین میں نائب بنایا ہے۔ تم میں سے بعض کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیے تاکہ تمھیں اپنے دیےہوئے احکام کے ذریعے آزمائے۔ بے شک تیرا رَب سزا دینے میں بہت تیز ہے اور بے شک وہ بڑا بخشنے والا اورمہربان ہے۔''انسان کے سپرد امانت کا بارکیاگیا ہے۔إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَاوَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ؒ لِّيُعَذِّبَ اللَّـهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِوَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًارَّحِيمًا ﴿الاحزاب، ۷۲-۷۳﴾''ہم نے اِس بارِ امانت کو پیش کیا آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے لیکن انھوں نے اُس بار کو قبول نہ کیا اور اس﴿ذمّہ داری﴾ سے ڈرگئے مگر اِنسان نے اس کو اٹھالیا۔ بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ یہ اِس لیے ہوا تاکہ اللہعذاب دے منافق مردوں اور عورتوں کو اور مشرک مردوں اور عورتوں کو اور اللہ معاف کردے مومن مردوںاور عورتوں کو۔ ﴿یقینا﴾ اللہ ہے بخشنے والا اور مہربان۔''اللہ نے انسان کو قابلِ احترام ہستی بنایا ہے۔وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰكَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ﴿بنی اسرائیل:۷۰﴾''ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی۔ خشکی اور تری میں ان کے لیے سواریاں فراہم کیں۔ اُن کو پاکیزہ چیزوں کا رزقدیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر اُن کو فضیلت عطا کی۔''مولانا شبیر احمد عثمانی اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:''﴿اللہ نے﴾ آدمی کو حُسنِ صورت، نطق، تدبیر اور عقل وحواس عنایت فرمائے، جن سے دنیوی واُخروی مضارومنافع کو سمجھتا اور اچھے برے میں تفریق کرتا ہے۔ ہر طرف ترقی کی راہیں اس کے لیے کھلی ہیں۔ دوسری مخلوقاتکو قابو میں لاکر اپنے کام میں لگاتا ہے، خشکی میں جانوروں کی پیٹھ پر یا دوسری طرح طرح کی گاڑیوں میں سفر کرتا اورسمندروں کو کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے بے تکلف طے کرتا چلاجاتا ہے۔ قسم قسم کے عمدہ کھانے، کپڑے،مکانات اور دنیوی آسائش ورہائش کے سامانوں سے منتفع ہوتا ہے۔ انھی انسانوں کے سب سے پہلے باپ آدم علیہالسلام کو خدا تعالیٰ نے مسجودِ ملائکہ بنایا اور ان کے آخری پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کل مخلوقات کا سردار بنایا۔غرض نوعِ انسانی کو حق تعالیٰ نے کئی حیثیت سے عزت اور بڑائی دے کر اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی۔''قرآن مجید یہ بھی بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے:وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ؒ وَطُورِ سِينِينَ ؒ وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ ؒ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍٔ التین:۱-۴﴾''قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر کی۔ ہم نے انسان کو احسنِ تقویم پر پیداکیا۔''مولانا شبیر احمد عثمانی اِن آیات کے ذیل میں لکھتے ہیں:''یہ سب مقاماتِ متبرکہ، جہاں سے ایسے ایسے اولو العزم پیغمبر اُٹھے، گواہ ہیں کہ ہم نے انسان کو کیسے اچھے سانچےمیں ڈھالا اور کیسی کچھ قوتیں اور ظاہری وباطنی خوبیاں اس کے وجود میں جمع کی ہیں۔ اگر یہ اپنی صحیح فطرت پر ترقیکرے تو فرشتوں سے سبقت لے جائے۔''اسلام کے پیش کردہ مندرجہ بالا تصورِ انسان سے اگر کوئی شخص واقف ہوتو اس کے اندر اپنی عظمت کا احساس پیداہوتا ہے۔ برائی کرتے ہوئے اُس کوجھجک محسوس ہوتی ہے اور اُس کا ضمیر اس کو ملامت کرتاہے۔ اپنی عظمت کے ادراک کے عین مطابق اخلاقی بلندیوں کی طرف سفر اُس کو اپنی فطرت کااقتضائ محسوس ہوتا ہے۔ برائیوں سے اُس کی طبیعت گھبراتی ہے اور بھلائیوں کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس انسان اگر اپنی عظمت سےناواقف ہو اور اپنے کو محض مادی عناصر کا مجموعہ سمجھتا ہو ﴿جو اتفاق سے وجود میں آگیا ہے﴾ تو اس کی طبیعت بھلائی اوربرائی کے درمیان امتیاز سے قاصررہتی ہے۔ تب اُس کے انسانی شعور کے بجائے پست جذبات اُس کا رویہ متعین کرتے ہیں اور اُسے بآسانی بُرائی کی طرف لے جاتے ہیں۔ آج کل یہ خیالعام ہے کہ سماج میں خواتین کااحترام کیاجانا چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے انسانوں کے اندر خود اپنی انسانی حیثیت کے لیے احترام کا جذبہپیدا ہونا چاہیے۔ جو شخص اپنا احترام کرے گا وہ اپنی شخصیت کو بلندی کی طرف لے جانے کی کوشش کرے گا اور جو اپنی عظمت سے ناواقف ہوگا، وہ خوداپنے آپ کو پستیوں کے حوالے کردے گا۔ قرآن مجید نے اِس حقیقت کو بیان کیاہے:وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاہَا Oفَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا Oقَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَاOوَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاھَاO﴿الشمس:۷-۱۰﴾''نفس انسانی کی قسم اور جیسا کہ اُس کو درست بنایا پھر اُس پر اس کی برائی اور نیکی الہام کردی۔ بے شک کامیاب ہواوہ جس نے نفس کا تزکیہ کیااور ناکام ہوا وہ جس نے اُسے دبادیا۔''اقدارکسی معاشرے کی پہچان اُس میں رائج قدریں ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر کسی معاشرے کی معرفت حاصل کرنی ہوتو یہ سوال کرنا چاہیے کہبھلائی اور برائی کے وہ کیا معیارات ہیں جو اُس معاشرے میں رائج ہیں؟ کس رویے اور طرزِ عمل کو وہاں اچھا سمجھا جاتا ہے اور کسے بُرا باور کیا جاتا ہے؟کائنات، خالقِ کائنات اور حقیقت انسانی کے بارے میں تصورات کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ ذہن انسانی کی گہرائیوں میں ہوتے ہیں اور براہِ راست نظر نہیںآتے۔ لیکن قدریں انسانوں کے عملی رویّوں اور کردار میں جھلکتی ہیں اور اُن کا ادراک آسانی سے کیاجاسکتا ہے۔ پاکیزہ معاشرے کے ضمن میں اِسلامجو قدریں پیش کرتا ہے وہ یہ ہیں: عفت وعصمت، حیا، صدق، امانت، پاسِ عہد، نفس انسانی کا احترام اور عدل، یہ وہ صفات ہیں جو پسندیدہ ہیں۔ اسیطرح ان صفات کے برعکس جو خصلتیں ہیں وہ ناپسندیدہ ہیں یعنی بے حیائی ، کذب، خیانت، نقصِ عہد، بغی اور ظلم۔ قرآن مجید نے دونوں پہلوؤں سےاقدار کا تعارف کرایاہے:قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ؒ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ؒ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ؒوَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ؒ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ؒ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَامَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ؒ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ؒ وَالَّذِينَهُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ؒ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ؒ أُولَـٰئِكَ هُمُالْوَارِثُونَ ؒ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴿المومنون:۱-۱۱﴾''بے شک فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دور رہتے ہیں،زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں، جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں اور ملک یمین کےکہ اُن ﴿سے حفاظت نہ کرنے﴾ کے معاملے میں وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں۔ اور جو کوئی اس کے سوا کوئی راستہ تلاشکرے تو ایسے لوگ حد سے آگے بڑھنے والے ہیں اور ﴿فلاح پانے والے وہ لوگ ہیں﴾ جو اپنی امانتوں اور اپنےعہدوپیمان کا لحاظ کرتے ہیں اور اپنی نمازوں کی نگہداشت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ وارث ہوں گے۔ وہ میراث میںفردوس پائیں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔''آیات بالا سے ظاہر ہے کہ پسندیدہ صفات میں ایک اہم صفت عفت وعصمت کی حفاظت ہے۔ جو لوگ اس میں کوتاہی کریں وہ حد سے گزرنے والےہیں۔قرآن مجید میں اقدار کا تذکرہ منفی پہلو سے بھی کیاگیا ہے:وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَايَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا O ﴿الفرقان:۶۸﴾''﴿اور رحمان کے بندے وہ ہیں﴾ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، کسی جان کو جسے اللہ نے حرامکیاہے، ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ بدکاری کرتے ہیں۔ جو کوئی یہ کام کرے وہ گناہ میں جا پڑا۔''یہاں تین بڑی برائیوں کا تذکرہ کرکے اُن کی قباحت بیان کی گئی ہے۔ یعنی خدائے رحمان کی عبادت کرنے والوں کے اونچے مقام سے یہ بات بعید ہےکہ وہ ایسی قبیح برائیوں کا ارتکاب کریں ۔ مزید بتایاگیا کہ جو شخص ایسے برے کام کرتا ہے وہ گناہ میں جاپڑتاہے۔ یہ برائیاں احترامِ انسانیت کے منافیہیں۔ جو شخص شِرک کرتا ہے وہ انسانیت کے مرتبے سے خود اپنے آپ کو گرالیتا ہے اور اپنے نفس کی خود توہین کرتا ہے۔ جو کسی انسان کو ناحق قتل کرتاہے ظاہر ہے کہ وہ انسانیت کی بدترین توہین وتذلیل کا مرتکب ہوتا ہے۔ اِسی طرح بدکاری کرنے والا شخص اپنے نفس کو ایک ناپاک ذریعہ اختیار کرنےپر مجبور کرتا ہے اور ایک دوسرے فردِ انسانی کو بھی پستیوں میں گراتا ہے۔ چنانچہ یہ تینوں افعال انسانیت کی تذلیل کے مترادف ہیں۔معاشرتی آدابافکار وتصورات کی اِصلاح کے بعد معاشرے کی پاکیزہ خطوط پر نشوونما کے لیے آداب وضوابط کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اِسلام نے اِس ضرورت کو پوراکیا ہے۔ اِس ضمن میں اِسلامی ہدایات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:''معاشرتی اِصلاح کے متعلق حسب ذیل ہدایات دی گئیں:٭ حضور ﷺ کے گھروں میں غیر مردوں کے بلااجازت داخل ہونے کو رُوک دیاگیا اور ہدایت کی گئی کہ ازواجِ مطہرات سے کوئی چیز مانگنیہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔٭ غیر محرم مردوں اور محرم رشتے داروں کے درمیان فرق قائم کیاگیا اور حکم دیاگیا کہ ازواجِ مطہرات کے صرف محرم رشتے دار ہی آزادیکے ساتھ آپ کے گھروں میں آجاسکتے ہیں۔٭ تمام مسلمان عورتوں کو حکم دے دیاگیا کہ جب باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو چادروں سے اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانک کر اورگھونگھٹ ڈال کر نکلا کریں۔''﴿تفہیم القرآن، دیباچۂ سورۂ نور﴾مندرجہ بالاہدایات سورۂ احزاب میں دی جاچکی تھیں۔ جو ۵ہجری میں نازل ہوئی تھی اس کے ایک سال بعد سورۂ نور نازل ہوئی ۔ اس کے ذریعے مزیدمعاشرتی آداب کی تعلیم دی گئی۔ اِن تعلیمات کا خلاصہ مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے درج کیا ہے:''٭ لوگوں کو عام ہدایت کی گئی کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف نہ گھس جایا کریں، بلکہ اجازت لے کر جائیں۔٭ عورتوں اور مردوں کو غضِّ بصر کا حکم دیاگیا اور ایک دوسرے کو گھورنے یا جھانک تاک کرنے سے منع کردیاگیا۔٭ عورتوں کو حکم دیاگیا کہ اپنے گھروں میں سَراور سینہ ڈھانک کررکھیں۔٭ عورتوں کو یہ بھی حکم دیاگیا کہ اپنے محرم رشتے داروں اور گھر کے خادموں کے سوا کسی کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔٭ اُن کو یہ بھی حکم دیاگیاکہ باہر نکلیں تو نہ صِرف یہ کہ اپنے بناؤ سنگھار کو چھپا کر نکلیں بلکہ بجنے والے زیور بھی پہن کر نہ نکلیں۔٭ معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے بِن بیاہے بیٹھے رہنے کا طریقہ ناپسندیدہ قرار دیاگیا اور حکم دیاگیا کہ غیر شادی شدہ لوگوں کے نکاحکیے جائیں، حتی کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی بن بیاہا نہ رہنے دیا جائے۔ اِس لیے کہ تجرد فحش آفریں بھی ہوتا ہے اور فحش پذیر بھی۔ مجرّد لوگ اور کچھنہیں تو بُری خبریں سننے اور پھیلانے ہی میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔٭ گھریلو معاشرت میں خانگی ملازموں اور نابالغ بچوں کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیاگیا کہ وہ خلوت کے اوقات میں ﴿یعنی صبح، دوپہر اور رات کےوقت﴾ گھر کے کسی مرد یا عورت کے کمرے میں اچانک نہ گھس جایا کریں۔ اولاد تک کو اجازت لے کر آنے کی عادت ڈالی جائے۔٭ قریبی عزیزوں اور بے تکلف دوستوں کو یہ حق دیاگیا کہ وہ ایک دوسرے کے ہاں بلااجازت بھی کھاسکتے ہیں اور یہ ایسا ہی ہے جیسا اپنےگھروں میں کھا سکتے ہیں۔'' ﴿ایضاً﴾اِسلامی مزاج یہ چاہتا ہے کہ اختلاطِ مردوزن کم سے کم ہو اور اجنبی مردوں اور عورتوں کو حقیقی تمدنی ضروریات کے لیے ایک دوسرے سے واسطہ پیشآئے تو وہ غضِّ بصر سے کام لیں۔ اس مزاج کی نشاندہی کرتے ہوئے سید مودودیؒ لکھتے ہیں:''یہ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچدار اندازِ گفتگو اختیار کرنے کیاجازت نہیں دیتا اور اُسے مردوں کے سامنے بلاضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتاہے، کیا وہ کبھی اس کو پسند کرسکتاہے کہ عورت اسٹیج پر آکر گائے، ناچے، تھِرکے، بھاؤ بتائے اور نازونخرے دِکھائے؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتاہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سُریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سُناسُنا کر لوگوں کے جذبات میںآگ لگائے؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کاپارٹ اداکریں؟ یا ہوائی میزبان (Air Hostess) بنائی جائیں اور اُنہیں خاص طور پر مسافروں کا دِل لُبھانے کی تربیت دیجائے؟ یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھل مِل کر باتچیت اور ہنسی مذاق کریں؟ یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کی گئی ہے؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنےہے۔ اس میں کہیں اِس کلچر کی گنجائش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشاندہی کردی جائے۔''﴿تفہیم القرآن، سورۂ احزاب، حاشیہ ۷۴﴾اِسی ضمن میں مولانامزید لکھتے ہیں:''قرآن مجید کے صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اِس بات کی آخر کیا گنجایش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوںاور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں اور بیرونِ خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں۔'' ﴿ایضاً، حاشیہ ۸۴﴾موجودہ دور میں اختلاطِ مردوزن کا ایک بڑا ذریعہ مخلوط تعلیم (Co Education) کا نظم ہے۔ فطری طور پر اِسلام کا مزاج یہ چاہتا ہے کہ لڑکوں اورلڑکیوں کی تعلیم کے لیے علاحدہ انتظامات کیے جائیں اور جب تک یہ نہ ہوسکے تعلیمی اداروں کا طریقِ کار ایسا رکھا جائے کہ اختلاط کم سے کم ہو اور ماحول کوفتنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مناسب ضوابط تجویز کیے جائیں۔اسلامی قانون کی ایک خصوصیتافراد کے ذہنوں کی اِصلاح اور معاشرے کو آداب کی تعلیم کے بعد قانون کی باری آتی ہے یہ واقعہ ہے کہ معاشرے کو پاکیزہ بنانے اور پاکیزہ رکھنے کےلیے محض تربیت کافی نہیں بلکہ احتساب اور برائیوں پر گرفت اور تعزیر بھی ضروری ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اِسلامی شریعت نے جُرمِ بدکاریکے لیے سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔ شریعت کے اس پہلو کوسطح بیں نکتہ چینوں نے تنقید کا ہدف بھی بنایا ہے لیکن شریعت پر تنقید کرنے والے یہمبصرین، تین حقائق کو فراموش کرگئے ہیں:﴿الف﴾ ایک حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی نظامِ قانون ایسا نہیں ہے جو صرف ہلکی سزاؤں پر مشتمل ہو اور جس میں سخت سزائیں پائی ہی نہ جاتیہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ کس جرم کی سزا کے ہلکی یا سخت ہونے کا انحصار جرم کی سنگینی پر ہوتا ہے۔ جس جُرم کو کسی معاشرے میں سنگین جُرم سمجھا جاتا ہےاُس پر سخت سزا تجویز کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس جِس فعل کو معمولی سمجھا جاتا ہے اُس کے لئے سزا بھی ہلکی ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں جناب سیدابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:''یہ دعویٰ کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ آج کے نام نہاد ترقی یافتہ تصورات، اِنسان کو انسان کے ہاتھوں عذاب پاتےہوئے دیکھنا سرے سے گوارا ہی نہیں کرتے۔ گوارا تو وہ کررہے ہیں اور پہلے سے زیادہ سخت عذابوں کو گوارا کررہےہیں۔ البتہ فرق جو کچھ واقعہ ہوا وہ دراصل اخلاقی قدروں میں ہے ۔ ان کے نزدیک جو جرائم واقعی سخت ہیں اُن پر وہخوب عذاب دیتے ہیں اور دِل کھول کر دیتے ہیں۔ مثلاً اُن کے سیاسی اقتدار کو چیلنج کرنا یا اُن کے معاشی مفاد میںمزاحم ہونا لیکن وہ جن افعال کو سرے سے جُرم ہی نہیں سمجھتے مثلاً شراب سے 'یک گونہ بے خودی' حاصل کرلینا یاتفریحاً زنا کرلینا، ان پر عذاب تو درکنار، سرزنش اور ملامت بھی انھیں ناگوار ہوتی ہے اور جُرم نہ سمجھنے کی صورتمیں لامحالہ، ناگوار خاطر ہونی ہی چاہیے۔'' ﴿'اسلامی قانون'از: سید مودودیؒ﴾﴿ب﴾ دوسری حقیقت یہ ہے کہ اِسلامی قانون، کسی ملزم کو سزا دینے سے قبل گواہی کی سخت شرائط تجویز کرتا ہے۔ اِن سخت شرطوں کی موجودگیمیں سزا وہی مجرمین پاسکتے ہیں جن کا جُرم واقعی سنگین ہو اور جن کا قصور وار ہونا ہر شبہے سے بالاتر ہو۔﴿ج﴾ تیسری اور اہم ترین حقیقت اِسلام نظام کی مجموعی اسپرٹ ہے۔ یہ اسپرٹ سزاؤں کے نفاذ کو اُس وقت مناسب سمجھتی ہے جب معاشرے کیاِصلاح کے لیے اطمینان بخش اقدامات کرلیے گئے ہوں۔ اِسلامی نظام کے اِس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:''اسلامی قانونِ تعزیرات، زِنا پر سو۱۰۰ کوڑے مارتا ہے اور شادی شدہ زنا کار کو سنگ سار کردیتا ہے مگر یہ کِس سوسائٹی میں؟ اُس میں جِس کے پورےنظامِ تمدن کو شہوت انگیز اسباب سے خالی کیاگیا ہو، جِس میں— عورتوں اور مَردوں کی مخلوط معاشرت نہ ہو، جِس میں بنی سنوری عورتوں کا منظرِ عام پرآنا بند ہو۔ جس میں نکاح نہایت آسان کردیا گیا ہو۔ جِس میں نیکی اور تقویٰ اور پرہیز گاری کا عام چرچا ہو اور جس کے ماحول میں خدا کی یاد ہر وقت تازہہوتی رہتی ہو۔﴿سخت سزاؤں کا﴾ یہ حکم اُس گندی سوسائٹی کے لیے نہیں ہے جس میں ہر طرف جنسی جذبات کو بھڑکانے کے اسباب پھیلے ہوئے ہیں۔ گلی گلی اور گھرگھر فحش گیت بج رہے ہیں۔ جگہ جگہ فلم اسٹاروں کی تصویریں لٹکی ہوئی ہیں۔ شہر شہر اور قصبے قصبے، سنیما درسِ عشق دے رہے ہیں، نہایت گندا لٹریچرآزادی کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ بنی سنوری خواتین کھُلے بَندوں پھر رہی ہیں، زندگی کے ہر شعبے میں جنسی اختلاط کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور نظامِمعاشرت نے اپنے بے ہودہ رواجوں سے نکاح کو نہایت مشکل بنادیا ہے۔'' ﴿ایضاً﴾قانونی ہدایاتاسلام نے جو قانونی ہدایات دی ہیں اُن کا تذکرہ مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کیا ہے:٭ ''زنا کو فوجداری جُرم قرار دے کر اُس کی سزا ﴿غیرشادی شدہ افراد کے لیے﴾ سوکوڑے مقرر کردی گئی۔٭ بدکارمردوں اور عورتوں کے معاشرتی مقاطعے کا حکم دیاگیااور اُن کے ساتھ رشتہ مناکحت جوڑنے سے منع کردیاگیا۔٭ جوشخص دوسرے پر زنا کاالزام لگائے اور پھر ثبوت میں چار گواہ نہ پیش کرسکے، اُس کے لیے ۰۸ کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی۔٭ شوہر اگر بیوی پر تہمت لگائے تو اس کے لیے لعان کا قاعدہ مقرر کیا گیا۔٭ جو لوگ بے ہودہ خبریں اور بری افواہیں پھیلائیں اور مسلم معاشرے میں فحش اور فواحش کو رواج دینے کی کوشش کریں، اُن کے متعلقبتایاگیا کہ وہ ہمت افزائی کے نہیں بلکہ سزا کے مستحق ہیں۔٭ لونڈیوں سے کسب کرانا ممنوع قرار دیا گیا۔ عرب میں یہ پیشہ لونڈیوں ہی سے کرانے کا رواج تھا، اِس لیے اس کی ممانعت ، دراصل قحبہ گری کیقانونی بندش تھی۔''﴿تفہیم القرآن، دیباچۂ سورۂ نور﴾اِن قانونی ہدایات کے علاوہ شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرنے والے کے لیے رجم ﴿سنگ ساری﴾ کی وہ سزا باقی رکھی گئی جو تورات میں پہلے سےموجود تھی۔ ان قانونی ہدایات کا منشا یہ تھا کہ معاشرے میں نکاح کے آسان اور بدکاری کے مشکل ہونے کے باوجود، جو لوگ بُرا راستہ تلاش کریں اُنکو سزا دی جائے تاکہ بُرے رجحانات کی ہمت شکنی ہو۔ اِس طرح پاکیزہ معاشرے کی جانب پیش قدمی کے لیے اسلام نے تربیت، تلقین اور تادیبتینوں سے کام لیا ہے۔ اِسلام کے اِس ہمہ گیر اصلاحی پروگرام سے اُمت مسلمہ کو خود بھی فائدہ اٹھانا چاہیے اور عامۃ الناس کوبھی اس سے واقف کراناچاہیے۔ اگر اُمت کے باشعور افراد اِس کام کی طرف متوجہ ہوجائیں تو بے حیائی کے اس طوفان کا مقابلہ کیاجاسکتا ہے، جس نے اس وقت پوری دنیا کواپنی زد میں لے رکھا ہے۔٭٭٭ڈاکٹر محمد رفعت__._,_.___
Reply via web post Reply to sender Reply to group Start a New Topic Messages in this topic (1) .
__,_._,___
--
For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to http://ca13054d.tinylinks.co
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs
For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to http://ca13054d.tinylinks.co
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.