Sunday 6 January 2013

اسلام سے گریز



2013/1/4 aapka Mukhlis <aapka10@yahoo.com>
اسلام سے گریز
شاہ نواز فاروقی
یاسر پیر زادہ پاکستان کے ان کالم نویسوں میں سے ایک ہیں جنہیں اسلام پر ''اصرار'' پسند نہیں۔ چنانچہ وہ پاکستانی لوگوں کی اسلام پسندی سے اکثر ہراساں ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ مسلمانوں کو سیکولر ازم کی جانب مائل ہوتے دیکھتے ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہوجا تا ہے اور وہ زبان حال سے کہتے نظر آتے ہیں کہ ''راستہ تو یہی ہے ۔'' 19 دسمبر 2012 کے کالم میں بھی یاسر پیر زادہ نے اپنے اس طرزِ فکر کو دہرایا ہے۔ لیکن اس کی وجہ کیا تھی؟ پاکستان میں ان دنوں اس مسئلے پر زور شور سے بحث ہورہی ہے کہ پاکستان کے ٹیلی وژن چینلز کو غیر ملکی ڈرامے دکھانا چاہیے یانہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے ایک ٹیلی وژن چینل نے ترکی کی ایک مقبول ڈرامہ سیریز ''عشق ممنوع'' کو نشر کیا ہے۔ اس پر پاکستان کے ڈرامہ پروڈیوسرز اور اداکار سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کا اصرار ہے کہ ترکی سے آنے والا ڈرامہ ہماری تہذیبی وثقافتی اقدار سے ہم آہنگ نہیں۔ چنانچہ اس اور اس جیسے ڈراموں کو نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں احتجاج کرنے والے لوگوں کا ایک وفد کراچی میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں سے بھی ملا ہے اور اس نے جماعت اسلامی کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ پاکستان معاشرے کی اقدار کے تحفظ کے لیے اسے بھی کچھ کرنا چاہیے۔
یاسر پیر زادہ نے اپنے کالم میں پاکستانی پروڈیوسرز اور اداکاروں کے اس موقف یہ تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے احتجاج کی اصل وجہ اقدار وغیرہ نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ محسوس کررہے ہیں کہ اگر غیر ملک سے ڈرامے لاکر انہیں ڈب کر کے نشر کرنے کا رجحان چل پڑا تو احتجاج کرنے والوں کی اپنی ''دکانیں'' بند ہوجائیں گی۔ یاسر پیرزادہ کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ جو لوگ ترک ڈرامے کے نشر کیے جانے پر احتجاج کررہے ہیں ان کی اکثریت ان عناصر پر مشتمل ہے جنہوں نے اپنے تجارتی مفاد کو ہمیشہ تہذیب وثقافت اور اقدار پر ترجیح دی ہے۔ چنانچہ زیر بحث مسئلے کے سلسلے میں ان کی اپنی اخلاقی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ لیکن یاسر پیرزادہ صرف اس نکتے پر گفتگو کرکے نہیں رہ گئے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ عشق ممنوع اتنا ''سیکولر'' ہے کہ ڈرامے کی آخری قسط میں جنازے کے سین سے معلوم ہوا کہ ڈرامے کے کردار ''مسلمان'' ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی ڈرامے کے محض سیکولر ہونے میں کون سی عظمت یا آرٹ پوشیدہ ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ جس چیز کو خود یاسر پیرزادہ سیکولر کہہ رہے ہیں اس کو ایک ایسے ملک میں کیوں نشر ہونے دیا جائے جو سیکولر حسیّت یا
Secular Sensibility کے اظہار کے لیے نہیں بنا تھا۔ آپ کہیں گے اس میں ایسی کون سی بڑی بات ہے، پاکستان میں امریکا، یورپ اور بھارت کی لاکھوں فلمیں اور ڈرامے نشر ہوچکے ہیں۔ آخر ان میں کون سی اسلامی حسیّت پائی جاتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ایک بنیادی نکتے کو ہمیشہ نظر انداز دیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ مغرب اور بھارت سے آنے والے تفریحی مواد اور کرداروں کی اجنبیت ناظرین کی اکثریت کے ذہن میں خود ایک سنسر کا کام کرتی ہے۔ ان ملکوں کے تفریحی مواد کو دیکھنے والے پاکستانی جانتے ہیں کہ یہ مواد ایک مختلف تہذیب، ایک مختلف تناظر اور ایک مختلف تصور حیات سے آیا ہے چنانچہ ہم اس سے ایک حد تک ہی اثر قبول کرتے ہیں۔ لیکن ترکی ایک اسلامی ملک ہے۔ چنانچہ اس کے تفریحی مواد کے سلسلے میں ہم اتنے محتاط نہیں ہوسکتے جتنا کہ ہونا چاہیے۔ بلکہ اس کے برعکس ناظرین کی اکثریت یہ سمجھے گی کہ ترکی کا تفریحی مواد اسلامی تہذیب ہی سے برآمد ہوا ہے چنانچہ اس کی قبولیت ہمارے یہاں بہت زیادہ ہوگی اور اس سے خطرناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ صرف اسلام کا ''تاثر'' سیکولر مواد کو ''اسلامی'' بنا کر رکھ دے۔ یعنی ہمارے ناظرین ''زہر'' کو ''دوا'' سمجھ کر کھا لیں۔ لیکن غالباً یاسر پیر زادہ تو چاہتے ہی یہ ہیں۔ اس لیے انہوں نے ترکی کے ڈرامے ''عشق ممنوع'' کی بے انتہا تعریف کی ہے۔ لکھتے ہیں۔
''لاجواب اداکاری، حسین ترکی چہرے، خوبصورت لوکیشن، نئی کاسٹ، کہانی کی ٹریٹمنٹ، گلیمر… اس ڈرامے میں ہٹ ہونے کے تمام لوازمات موجود تھے۔''
یاسر پیر زادہ کے اس تبصرے کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ انہیں تو سیکولر ڈرامے کے آرٹسٹک پہلو وئون کا بھی شعو نہیں۔ آرٹسٹک نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اصل چیز خوبصورت چہرے اور لوکیشن نہیں ہوتیں۔ اصل چیز کہانی اور اس کا پیغام اور اس کا اثر ہے۔ یہ چیزیں فرانس کے ممتاز ناول نگار فلوبیئر کو اتنی عزیز تھیں کہ اس نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ اس کے ناولوں پر بھی کوئی فلم یا ڈرامہ بنانے کی زحمت نہ کی جائے کیونکہ اس سے اس کا ناول تباہ ہوکر رہ جائے گا۔ یاسر پیر زادہ نے ترک ڈرامے میں جو ''لوازمات'' دریافت کیے ہیں۔ ان کا تعلق ''آرٹ'' سے نہیں تجارتی ذہنیت یا ''کمرشل ازم'' سے ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ترک ڈرامے کے ''عیوب'' میں ایک اور ''عیب'' کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ مگر یاسر پیرزادہ کی اسلام سے گریز اپنی پہلوئوں تک محدود نہیں۔ لکھتے ہیں۔
''عشق ممنوع کا اچھوتا پن۔ ترک مسلم اشرافیہ کا رہن سہن اور
Mannerism تھا جو پاکستان کے ناظرین کے لیے بالکل نئی چیز تھی۔ ہمارے دماغوں میں ترکی کا جو ''اسلامی نقشہ'' بیٹھا ہے اس کے تحت ہم اب بھی ترکی کو سلطنت عثمانیہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جہاں جلد یا بدیر خلافت قائم ہوجائے گی۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں ہماری دینی جماعتوں کا حصہ ہے جنہوں نے ہمیں باور کرا رکھا ہے کہ برادر ملک ترکی اب نام ہی کا سیکولر ہے۔ وہاں اسلام کی ایک جدید شکل رائج ہے۔ نہیں یقین آتا تو طیب اردگان کی بیوی کو دیکھ لیں جو حجاب لیتی ہے۔ ''عشق ممنوع'' نے اس تصور کی دھجیاں اڑا دیں''
اس پیراگراف میں یاسر پیر زادہ ترکی کے سیکولر ازم پر دھمال ڈالتے نظر آتے ہیں۔ مگر انہیں ترکی کے بنیادی حقائق کا کوئی شعور ہی نہیں ہے۔ اور دنیا جانتی ہے کہ ترک پاکستان اور پاکستانیوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بر صغیر کے مسلمانوں نے خلافت کے خاتمے کا غم جس طرح منایا تھا اور اس موقع پر اپنے ترک بھائیوں کی جس طرح مدد کی تھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ ترکی کے لوگوںنے برصغیر کے مسلمانوں کے اس کردار کو آج تک فراموش نہیں کیا اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ترکی کے لوگوں کی عظیم اکثریت آج بھی خلافت کے تصور سے وابستہ ہے۔ بلاشبہ ترکی آئینی اعتبار سے سیکولر ہے اور اس کی اشرافیہ واقعتا سیکولر ہے لیکن اس کی وجہ سیکولر ازم کا 70 سالہ جبر ہے۔ اس جبر کی جبریت کا یہ عالم تھا کہ قرآن کی تعلیم ممنوع قرار پا گئی تھی اور اذان عربی کے بجائے ترکی زبان میں دی جاتی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ترکی کا سیکولر ازم ترکی کے لوگوں کا ''انتخاب'' نہیں کی ''تاریخی مجبوری'' ہے۔ مگر یہ مجبوری بھی اب اشرافیہ تک محدود ہے اور اشرافیہ ترکی کے پانچ ، سات فیصد کی نمائندہ ہے ۔ اس اشرافیہ کا اثر فوج، ذرائع ابلاغ اور استنبول اور انقرہ میں نظر آتا ہے۔ ورنہ ترکی کے چھوٹے شہر اور دیہات میں مذہبی رحجانات قوی ہیں اور قوی تر ہوتے جارہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ یاسر پیر زادہ نے خود تسلیم کیا ہے کہ ''عشق ممنوع'' میں ترکی کی ''اشرافیہ'' کا طرز حیات دکھایا گیا ہے۔ اس کے باوجود بھی وہ ''پورے ترکی'' کو ''سیکولر'' قرار دے رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اشرافیہ تک پورے پاکستان کی نمائندہ نہیں تو کمال ازم کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ترکی کی اشرافیہ پورے ترکی کی ترجمان کیسے ہوسکتی ہے۔؟
 

--
 
 



--
-- 
For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to http://ca13054d.tinylinks.co
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.