2013/1/2 aapka Mukhlis <aapka10@yahoo.com>
--
…
ایک اور سال بیت گیا۔ صرف ایک ہندسے کی تبدیلی کے ساتھ ہی پوری دنیا میں نئے سالکی تقریبات شروع ہوگئیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ عیسوی سال ہے یا ہجری، ایکنئی تاریخ کا باب کھل چکا ہے۔ عیسوی سال کی بنیاد سورج کی گردش پر ہے جبکہ ہجریکلینڈر چاند کی گردش کے تابع ہوتا ہے۔ دونوں کلینڈروں میں ایک سال کے دوران تقریباًگیارہ دن کا فرق پڑجاتا ہے اور تینتیس برسوں میں یہ فرق بڑھ کر ایک سال کے برابرہوجاتا ہے۔
کہتے ہیں ہر نیا سال نئی اُمیدیں لے کر آتا ہے۔ صرف ہندسوں میں ایک ہندسہ بدلتا ہے تودنیا بھر میں سالِ نو کا ہنگامہ شروع ہوجاتا ہے۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا واقعی ہندسےبدلنے سے حالات بھی بدل جاتے ہیں؟ وہی سورج ہوگا جو گزرے سال کے آخری دن ڈوباتھا، وہی لوگ ہوں گے، وہی حالات اور سوچیں ہوں گی۔ بس خوشی منانے کا ایک موقعمل جاتا ہے، ورنہ سارے دن عام سے ہوتے ہیں اور میرے جیسے جو نئے سالانتظار میں ہوتے ہیں کہ نیا ٹائم ٹیبل بنائیں گے، زندگی میں جو بے ترتیبی ہے وہ اگلےسال ٹھیک کریں گے وغیرہ… یہ ایسے ادھورے خواب ہیں جو ہر سال ظاہر ہوجاتے ہیں،لیکن پھر بھی کچھ نہیں ہوتا اور چند دن بعد دوبارہ وہی روٹین شروع ہوجاتی ہے۔
بحیثیت قوم ہم صرف ایک نئے سال میں داخل نہیں ہوئے بلکہ ہمارا ہر نیا سال غم سےشروع ہوکر قربانی پر ختم ہوتا ہے۔ نئے سال کا آغاز ہوتے ہی نیو ایئرنائٹ کی محفلیںجمتی ہیں اور ہیپی نیو ایئر کی مبارک بادیں دی جاتی ہیں، لیکن ہر جشن دراصل بالادستطبقات کے المناک استحصال سے غریبوں اور محنت کشوں کی بربادی کا ایک تماشا ہوتاہے۔ ہر آنے والا سال اس دنیا کی وسیع تر آبادی کے لیے مزید عذابوں اور اذیتوں کا پیامبن کر آتا ہے، کیونکہ یہ سال اور وقت جن سماجی نظاموں میں سے گزرتے ہیں وہ ایکاقلیتی حکمران طبقے کی دولت، مراعات اور عیاشیوں کو اکثریت کے خون، آنسو اورپسینے سے نچوڑ مہیا کرتے ہیں۔ درحقیقت نئے سال میں نیاپن کچھ نہیں بلکہ سب کچھویسا ہی ہے۔ دن رات، زمین آسمان سب کچھ وہی ہے، اور وقت کی کڑوی یادیں بھی اسیطرح ہمارے ساتھ ہیں۔ جس طرح نئے سال میں نیا پن کچھ نہیں، اسی طرح پچھلا سال بھیکسی عذاب سے کم نہ تھا بلکہ ظلم و جبر کی انتہا کا سال تھا، قتل و غارت گری کے نئےانداز کا سال تھا، فحاشی و عریانیت کے پھیلائو کا سال تھا، مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کیعصمتوں کے ساتھ کھلواڑ کا سال تھا، عوام کے ساتھ حکمرانوں کی دورخی کا سال تھا،کبھی رگڑا تو کبھی ووٹ ڈالنے کا سال تھا۔ پچھلے سال بھی ہم غلام تھے اور اِس سال بھیغلاموں کی سی زندگی بسر کررہے ہیں، کل بھی انصاف نہیں مل رہا تھا اور آج بھی ہمانصاف کے متلاشی ہیں۔
گزرے سال کے آخری دن وہی روایتی سوال خود سے اور دوسروں سے پوچھا جاتا ہےکہ یہ سال کیسا گزرا، کیا کھویا اور کیا پایا؟ بحیثیت قوم ہم نے اتنا کچھ کھویا کہ شمار کرنامشکل ہے۔ گزرے سال سیاسی، معاشی، ثقافتی اور ادبی غرض ہر شعبے میں بے شمارتبدیلیاں ضرور آئی ہوں گی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وطن سے دور رہ کر بھیسکون نہیں، اور وطن میں رہ کر بھی ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ کتنا عجیب لگتا ہے جبہر کوئی اپنے آس پاس موجود لوگوں کو مشتبہ نظر سے دیکھتا ہے۔ جب اخبار اُٹھاتےہوئے، خبریں سنتے ہوئے اور کسی کا فون آتے ہی بے اختیار منہ سے ''خدا خیر کرے''نکلتا ہے۔ جس جانب نظر جاتی ہے خاموشی ہی خاموشی دکھائی دیتی ہے۔ ہر طرف جاڑےکا سماں… جس سے بات کرو خوفزدہ دکھائی دیتا ہے۔ دوست دوست سے خوفزدہ،پڑوسی پڑوسی سے نالاں… کوئی بھی کسی سے خوش نہیں۔ عوام روٹی، کپڑا اور مکانکے چکر میں در در بھٹک رہے ہیں پھر بھی زندگی رواں دواں ہے اور اُمید کا دامن ہاتھسے نہیں چھوٹا۔ جس طرح پچھلا سال بے تحاشا پریشانیوں اور دُکھوں کا سال رہا اسیطرح اس نئے سال سے بھی کوئی خاص اُمید نہیں لگانی چاہیے، لیکن اس بارے میںضرور سوچنا ہوگا کہ یہ استحصال صرف ہمارے ساتھ ہی کیوں ہورہا ہے؟ جب کل اور آجمیں کوئی خاص فرق دکھائی نہیں دیتا تو پھر ہم آنے والے سال سے اتنی اُمیدیں کیوںلگاتے ہیں؟
اگر ان سوالات کے جوابات مل جائیں تو پھر ایک نئے عزم کے ساتھ تہیہ کرلیں کہ ہم آجسے ہی جھوٹ، مکر، فریب، غیبت، بخیلی، تنگ دلی، فضول گوئی، بے صبری،خودنمائی، خود ستائی، دروغ گوئی، وعدہ خلافی، راز کی سبوتاژی، دشنام طرازی، لڑائیجھگڑے، آبروریزی، ایذا رسانی، نفرت، غصہ، احساسِ برتری، احساسِ کمتری، تخریبکاری، چغل خوری، حرام کاری، کام چوری، سود خوری، ظلم، بدعہدی، خیانت، سنگدلی، تنگ نظری، چھچھورپن، تلون مزاجی، پست حوصلگی، بزدلی، بدتمیزی، فرضناشناسی، بے وفائی، غیر ذمہ داری، نااتفاقی، بدخواہی، ناہمواری، بدی، قتل، ڈاکا، جعلسازی، رشوت خوری، بدزبانی، بہتان تراشی، فساد انگیزی، تکبر، ہٹ دھرمی، حرص،ریاکاری اور منافقت جیسی برائیوں کا اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرکے نظموانضباط، تعاون، امدادِ باہمی، محبت، اعتبار، وسعت نظری، سچائی، نیکی، انصاف، پاسِعہدی، امانت داری، ہمدردی، رحم، فیاضی، فراخ دلی، صبر و تحمل، اخلاقی بردباری،خودداری، شائستگی، ملنساری، فرض شناسی، وفا شعاری، مستعدی، احساس ذمہ داری،والدین کی خدمت، رشتہ داروں کی مدد، ہمسایوں سے حسن سلوک، دوستوں سے رفاقت،یتیموں اور بے کسوں کی خبر گیری، مریضوں کی تیمارداری، مصیبت زدہ لوگوں کیاعانت، پاک دامنی، خوش گفتاری، نرم مزاجی، خیر اندیشی، راست بازی، کھرا پن، فراخدلی اور امن پسندی جیسی اچھائیوں کو اپنائیں گے، ورنہ ہر نیا ہجری یا عیسویں سالصرف ہندسوں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
--
For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to http://ca13054d.tinylinks.co
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs
For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to http://ca13054d.tinylinks.co
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.