Sunday, 27 October 2013

ملالہ کے ملنگ

---------- Forwarded message ----------
From: "aapka Mukhlis" <aapka10@yahoo.com>
Date: Oct 14, 2013 9:39 PM
Subject: [Yaadein_Meri] [ ملالہ کے ملنگ
To: <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>
Cc: "joinpakistan@googlegroups.com" <joinpakistan@googlegroups.com>

 



ملالہ کے ملنگ اس وقت عالم غضب میں ہیں۔تکیے پر بیٹھے مخبوط الحواس ملنگوں کی طرح یہ اس کے ایک ایک زخم کی سوداگری کریں گے اور اپنی اپنی دکان چمکائیں گے۔پیشہ ور مجاور!
ان ملنگوں کو ہر شام روشن خیالی کی خارش بے خود کر دیتی ہے۔اب ملالہ کو امن کا نوبل انعام نہ مل سکا تو ان کی خارش میں اضافہ ہو گیا ،یہ تنور پر بیٹھی عورتوں کی طرح اپنے ہی سماج کو طعنے دینا شروع ہو گئے۔یہ مجاور جب تک ملالہ کو ' ولن' نہیں بنا لیں گے انہیں چین نہیں آ ئے گا۔
بات ملالہ کی نہیں اس کے مجاوروں اور ملنگوں کی ہے۔ملالہ کی جرات کو سارے سماج نے تحسین کی نظر سے دیکھا تھا ۔جب اسے ظلم کا نشانہ بنایا گیا ہر گھر میں اس کے لے دست دعا بلند ہائے تھے۔وہ اس قوم کی بیٹی ہے۔لیکن اب اس کے ملنگوں نے اس کے نام پر جو رقص ابلیس شروع کر رکھا ہے اور اس کے مجاوروں نے جو نتائج فکر اخذ کرنا شروع کر دیے ہیں ،اصل مسئلہ وہ ہیں۔
مغربی تہذیب ملالہ کی آڑ میں اسلامی تہذیب کو سینگوں پر لے چکی ہے اور اس کا ابلاغ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان جنونیوں ،جاہلوں ،اور خونیوں کا ملک ہے اور یہ صرف مغربی تہذیب ہی ہے جو عورت کے حقوق،آزادی رائے اور تعلیم کی قدر کو یقینی بناتی ہے۔۔۔۔ملالہ کے ملنگوں کی ساری اچھل کود کا حاصل تہذیبی تصادم کا یہی نکتہ ہے۔ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ملالہ کے بارے میں مغربی ممالک کی حساسیت پر تنقید کرنے والے اصل میں مغربی تہذیب کی اعلی قدروں سے ناواقف ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ مغربی تہذیب عورت کے حقوق، آزادی رائے اور تعلیم کے بارے میں کتنی حساس ہے۔
یہ ارشادِ گرامی پڑھا تو مجھے میڈیلن البرائٹ یاد آ گئیں۔یہ 1996ء کی بات ہے۔وہ امریکی کے ٹی وی پروگرام 60منٹ میں مدعو تھیں۔میزبان نے سوال کیا:'' عراق پر امریکی پابندیوں سے پانچ لاکھ سے زیادہ بچے مر چکے ہیں،کیا اتنی بھاری قیمت دی جانی چاہیے؟''۔اعلی مغربی تہذیب کی علمبردار عورت کا جواب تھا:'' جی ہاں یہ ایک مناسب قیمت ہے،دی جانی چاہیے''۔ ملنگوں کا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عالم مد ہوشی میں وہ صرف مجاوری کرتے ہیں حقائق سے انہیں تبخیر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ان ملنگوں کے رویے دیکھ کر کیتھرین گراہم یاد آ جاتی ہیں۔کیتھرین واشنگٹن پوسٹ کی مالک تھیں۔ 1988ء میں انہوں نے سی آئی اے میں نئے بھرتی ہونے والے جوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:ہم بڑی گندی اور خطرناک دنیا میں رہتے ہیں۔کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ عام آدمی کو نہ تو ان کو جاننے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ انہیں جان سکے"( بحوالہ ولیم بلم ، کلنگ ہوپ، صفحہ 121)۔چنانچہ اب تلخ حقیقت یہ ہے کہ الا ماشا اللہ دنیائے دانش کیتھرین کے فکری فرزندوں سے بھری پڑی ہے جو صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ عام آدمی کو نہ تو ان کو جاننے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ انہیں جان سکے ۔آپ فرانس کے سابق ڈپٹی سپیکر اور سینیٹر راجر گراؤڈی کی کتاب'' دی فاؤنڈنگ متھز آف اسرائیلی پالیسی'' پڑھیں آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائین گے کہ کس طرح راجر نے جب عام لوگوں کو ان ' کچھ چیزوں' کا بتانا چاہا تو مغربی میڈیا نے ان کا بائیکاٹ کر دیا۔ہمارے ملنگ ڈگڈگی بجاتے ہیں کہ مغربی تہذیب آزادی رائے کی بڑی قائل ہے۔جھوٹ کے یہ لشکری اتنے بے باک ہو چکے ہیں کہ نام چامسکی جیسا آدمی چیخ اٹھتا ہے''حقائق بہت کڑوے ہیں۔صرف یہی نہیں کہ تعلیم یافتہ اور معقول لوگوں کو سچائی سے دور کر دیا گیا ہے بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بد ترین حالات کی ذمہ داری مظلوموں پر ڈال دی گئی ہے''۔
دنیا کو لہومیں نہلا نے کے بعد اس مغربی تہذیب کو اخلاقی برتری کا تاثر دینے کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ ملالہ جیسے واقعات کو اچھالتی ہے تو کہ اس کی انسانیت دوستی کی سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔یہ مہم اتنی جاندار ہوتی ہے کہ گاہے گماں گزرتا ہے ہیروشیما اور ناگا ساکی میں تو کوئی بیٹیاں نہیں رہتی تھیں کہ جنہیں پل بھر میں بخارات بنا کے اڑا دیا گیا ۔وزیرستان کی بیٹیوں کو رات سوتے میں ڈرون ان کے کھلونوں سمیت بکھیر دے تو یہ کیتھرین کے ' فرزندان صحافت' کے لئے کوئی خبر نہیں ہوتی۔عراق میں ہماری بیٹیوں کی عزت لوٹ کر امریکی فوجی لاش کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال دیں تو ' انکل اوبامہ' اس خاندان کو تو جنرل اسمبلی سے خطاب کی دعوت نہیں دیتے۔انسانیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر بیٹی کو ملالہ سمجھا جائے اور ہر بیٹی کے زخموں پر مرہم رکھا جائے لیکن مغربی تہذیب صرف اس کے سر ہاتھ رکھتی ہے جو تصادم تہذیب میں مغرب کے مقدمے کو تقویت پہنچائے۔یہ انسانیت نہیں بیوپار ہے۔انسانیت دوستی کے نام پر ایک آدھ ڈرامہ کر کے مغرب اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتا کہ ' بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانے سے'۔کالم میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ تفصیل سے بیان کر دیا جائے تاہم حقیقت یہ ہے کہ مغرب جب بھی کسی قوم سے لڑائی کے میدان میں اترا اس نے انسانیت کو طلاق بائن دے دی۔جب جرمن قوم سے معاملہ درپیش تھا تو اس کے سر پر وہی خون سوار تھا جو آج کل مسلمانوں کے حوالے سے اس کے سر پر سوار ہے۔چرچل نے پال ریناڈ کو خط میں لکھا:'' ہم جرمنی کو قحط کا شکار کر دیں گے ،ہم اس کے شہروں کو تباہ کر دیں گے اور اس کے جنگلوں کو آگ لگا دیں گے''( بحوالہ،راجر گراؤڈی، دی فاؤنڈمتھز،صفحہ 43) ۔برطانوی وزیر لارڈ وینسیٹرٹ نے ائر فورس کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: '' صرف مردہ جرمن ہی اچھے جرمن ہیں۔بس بم برساتے جاؤ''۔( بحوالہ،راجر گراؤڈی، دی فاؤنڈمتھز،صفحہ 43)۔نیو یارکر میگزین کے ایڈیٹر کلفٹن فاڈیمن نے لکھا:'' جرمنوں کو سمجھانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے''۔( بحوالہ،راجر گراؤڈی، دی فاؤنڈنگ متھز،صفحہ42)امریکی دانشور تھیوڈور کف مین نے اپنی کتاب '' جرمنی مسٹ پیرش'' میں صفحہ 17 پرلکھا:''جرمنوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔جنگ کے بعد بیس ہزار ڈاکٹروں کو متحرک ہو جانا چاہیے۔ہر ڈاکٹر روزانہ 25جرمنوں کو بانجھ کرے۔اس طرح تین ماہ میں کوئی ایسا جرمن نہیں بچے گا جو نسل کو آگے بڑھا سکے۔یعنی 60سالوں میں جرمن نسل کا مکمل صفایا ہو جائے گا''۔( اب اگر مغربی امداد سے چلنے والے طبی پروگرامز کو قبائل اور کے پی کے میں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو اس نفسیاتی گرہ کا ذمہ دار کون ہے؟کیتھرین کے فرزندان صحافت غور فرمائیں گے؟)
امریکہ کی تاریخ خونی تاریخ ہے۔اس تاریخ میں اس نے صرف رعونت اور فسطائیت سے کام لیا ہے۔بین الاقوامی قوانین اور ضابطے کبھی اس کی روہ میں حائل نہیں ہو سکے۔امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ڈین ایچی سن ریاست کے رہنما اصول کو یوں بیان کرتے ہیں:''امریکہ بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں۔انٹر نیشنل لاء جائے جہنم میں۔مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے ماہرین کیا کہتے ہیں''( بحوالہ،بل ڈلن،یو ایس۔اے روگ سٹیٹ،27اکتوبر2002۔دی ٹراؤزر رولرز)۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں لکھا:'' کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی مرد عورت اور بچے کو قتل نہ کیا جائے،تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے یا اسے غائب نہ کر دیا جائے اور امریکہ اس ظلم میں شریک نہ ہو''( بحوالہ نام چامسکی ، روگ سٹیٹس۔۔۔باب10)
دنیا میں سب سے زیادہ قتل و غارت کر نے والا امریکہ ملالہ جیسے چند واقعات کی آڑ میں اپنی تہذیبی برتری ثابت کر کے خود کو انسان دوست قوت کے طور پر متعارف کراتا نظر آتا ہے تو رچرڈ ریویز یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا:''ہم امریکی اپنی رہنمائی کے حوالے سے بے ہودہ اور واہیات باتیں علی الاعلان کرتے ہیں''۔اسی سفاک رویے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے ولیم بلم لکھتے ہیں:
"بات یہ نہیں ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اس لیے بے رحم ہے کہ اس کی قیادت بے رحم ہے۔معاملہ یہ ہے کہ ہمارے رہنما اس لیے بے رحم ہیں کیونکہ فارن پالیسی اسیٹسلشمنٹ میں صرف انہی کو عہدہ مل سکتا ہے جو بے رحم، ظالم،بے شرم اورڈھیٹ ہوں''( بحوالہ ولیم بلم ،کلنگ ہوپس،یو ایس ملٹری اینڈ سی آی اے انٹر ونشنز سنس ورلڈ وار ٹو، کامن کیج پریس، صفحہ 83)
تو کیا کیتھرین گراہم کے فرزندان صحافت یعنی ملالہ کے ملنگ بھی بے رحم، ظالم ، بے شرم اور ڈھیٹ ہیں؟۔۔۔ فیصلہ ملنگوں پرہی چھوڑدینا چاہیے۔
--
To Join and post in BazmEQalam ,click the following link
 
https://groups.google.com/forum/#!forum/BAZMeQALAM


__._,_.___
Reply via web post Reply to sender Reply to group Start a New Topic Messages in this topic (1)
Recent Activity:
.

__,_._,___

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.