Saturday, 5 October 2013

اجتماعی انسانی شعور میں شراکت داری کا نیا منظر نامہ

---------- Forwarded message ----------
From: "abdul touheed" <drabdultouheed16@yahoo.com>
Date: Jul 25, 2013 1:11 PM
Subject: Pakistani Press Fw: [Urdu_Adab] اجتماعی انسانی شعور میں شراکت داری کا نیا منظر نامہ
To: "public_awareness2005@yahoo.com" <public_awareness2005@yahoo.com>, "pakistanipress@googlegroups.com" <pakistanipress@googlegroups.com>


محترم ابدالی صاحب،
آپ کے نقاط صحیح ہیں لیکن ہمارا رویہ ان تبدیلیوں کے بارے میں
مناقشانہ ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم ان تبدیلیوں کا حصہ بن کر
ان کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کریں ہم ان تبدیلیوں کے آگے بندھ باندھ  رہے ہیں تا کہ
ہمارے لوگوں کی ان تک رسائی نہ ہوسکے اور وہ ان
کے منفی اثرات سے بچے رہیں۔
منفی اثرات سے بچنے کے چکر میں ہم ان کے مثبت افادے سے بھی خود کو محروم رکھ رہے ہیں۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے جو لوگ ہماری تاریخ اور ہمارے تصورات
رپورٹ کر رہے ہیں ایک طرف ہم ان کے اثرات سے نڈھال ہو رہے
دوسری طرف ہم احتجاجوں کے ذریئے ان سے نپٹنا چاہتے ہیں۔
اس لئے اگر ہم ان شعبوں میں مہارت حاصل کریں اور اپنے تصورات خود
پیش کریں تو شاید ہمیں احتجاجوں کی ضرورت نہ رہے۔
نیازمند
کے اشرف
 
From: Ordu_Adab@yahoogroups.com [mailto:Ordu_Adab@yahoogroups.com] On Behalf Of Kamal Abdali
Sent: Saturday, July 20, 2013 12:28 PM
To: Ordu_Adab@yahoogroups.com
Subject: Re: [Urdu_Adab] اجتماعی انسانی شعور میں شراکت داری کا نیا منظر نامہ
"معلوماتی انقلاب" کے مثبت اثرات خواجہ اشرف صاحب نے بڑے مدلّل طریقے سے اور بہت اچھی مثالوں کے ساتھـ بیان کیے ہیں۔ لیکن اس کے منفی اثرات کا ذکر بھی ہونا چاہئے، کیونکہ ہر ایجاد کے فوائد کے ساتھـ اس کے غلط استعمال سے نقصانات بھی ممکن ہیں۔ موجودہ معلوماتی انقلاب کے دو نقصانات بہت نمایاں ہیں:

1۔ جو معلومات دستیاب ہیں ان کا حجم اتنا بڑھ گیا ہے کہ کیا کچھـ صحیح ہے اور کیا کچھـ غلط ہے، اس کی تمیزبہت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

2۔ سرکاری، کارپوریٹ، اور دوسرے با ذرایع اداروں کی طرف سے غلط خیالات اورجھوٹ کا پرچار کر کے عوام کے ذہن کو متاثر کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔

یہ نقصانات ابھی نا قابل ِ تلافی نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے سدّ ِ باب کے لئے غیر جانب داراداروں کے قیام اوردستیاب معلومات کی مستقل جانچ پرکھـ کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔

مسئلہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ مختلف طرح کی معلومات حاصل کرنا،  دوسروں تک پہنچانا، اور ان پر تبصرہ اور تنقید کرنا اب بہت آسان ہو گیا ہے۔  بلکہ یہ انقلاب کا مثبت پہلوہے!۔ لیکن جہاں جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کیا جائے، یا غیر حقیقی بات کو واقعے کے طور پر بیان کیا جائے یا کسی رائے، جو بذاتِ خود خواہ صحیح ہو یا غلط ہو، کے حق میں غلط دلیل دی جائے تو اس کی نشان دہی سب کے لیے مفید ہوگی۔
 
نیازکیش، کمال ابدالی
 
2013/7/20 Syed Ehtisham <syedmae@yahoo.com>
 
Very well written, Ashraf Sahib.
E
 
Dr. S. Akhtar Ehtisham
Blog syedehtisham.blogspot.com
All religions try to take over the establishment and if they fail, they collaborate with it, be it feudal or capitalist.

From: K. Ashraf <kashraf@ix.netcom.com>
To: Ordu_Adab@yahoogroups.com; adabdotcom@googlegroups.com
Sent: Saturday, July 20, 2013 12:55 PM
Subject: [Urdu_Adab] اجتماعی انسانی شعور میں شراکت داری کا نیا منظر نامہ
 
 
اجتماعی انسانی شعور  میں شراکت داری کا نیا منظرنامہ
کے اشرف
سائنس نے انسانی زندگی میں جو انقلاب برپا کیا ہے اس نے انسانی شعور  کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔اب کسی پسماندہ ملک میں کسی دور دراز گاوں میں بیٹھا نوجوان  کسی بھی موضوع پر چشم زدن میں ایک بٹن کلک کرکے وہ ساری انفارمیشن حاّصل کر سکتا جس کی اُسے ضرورت ہو۔ اِس انفارمیشن کے حصول  میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہے۔انسان نے علم کے اب تک جتنے شعبے ایجاد کئے ہیں اُن میں سے کسی ایک سے متعلقہ کسی مسئلے پر کوئی بھی انسان چشم  ِزدن میں رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
یہ سب سائنس کی وجہ سے ممکن ہو ا ہے۔ اگر ہم ماضی میں زیادہ دور نہ جائیں یعنی ازمنہ ٔقدیم میں نہ جا پہنچیں بلکہ ایک دو دہائیاں پیچھے پلٹ کر دیکھیں تو صورت حال یہ تھی کہ کسی موضوع پر موادتلاش کرنے لئے انساں کو مہینوں لائبریریوں  کی خاک چھاننا پڑتی تھی۔ ہاتھ سے نوٹ بکس پر نوٹ لکھنے پڑتے تھے ، ان نوٹس کے حوالہ جات مرتب کرنا پڑتے تھے، پھر اِن نوٹس کو اپنے  مقالات میں اِس طرح ضم کرنا پڑتا تھا کہ آپ اپنے افکار اور اُن افکار کے بارے میں باقی صاحبان  ِعلم کی آرا  ٔ دوسروں تک   پہنچا سکیں ۔ علاوہ ازیں اِس ترسیل کے لئے جن ذرائع کی ضرورت ہوتی  تھی اُن تک سب کی نہیں صرف چیدہ چیدہ لوگوں کو رسائی حاصل ہوتی تھی ۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔  اب علم کا ہر شعبہ ہر انسان کی دسترس میں ہے۔یہ سب انٹرنیٹ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔  انٹر نیٹ کی ایجاد نے اجتماعی انسانی شعور میں شراکت داری کے عمل میں ایک نیا منظر نامہ داخل کر دیا ہے ،۔
اگرچہ انسانی شعور میں شراکت داری  کا یہ تیز تر عمل نیا ہے لیکن انسانی شعور میں شراکت داری کا یہ تصور ہر گز  نیا نہیں ہے۔ جب سے انسان نے سوچنا اور اپنی سوچوں کو دوسروں سے شیئر کرنا سیکھا ہےانسانی شعور میں شراکت داری کا یہ عمل جاری ہے۔ لیکن سائنس  نے ترسیل سے وابستہ ٹکیکنالوجی میں ایجادات سے یہ کمال کیا ہے کہ  اجتماعی انسانی شعور کی اِس شراکت داری   کے احاطہ کار کو اتنا پھیلا دیا ہے اور اِس  کی رفتار اتنی تیز کر دی ہے کہ انسانی تاریخ میں  اِس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔
ماضی بعید میں انسان کو دوسرے انسانوں کی علمی سوچوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے بعض اوقات سالہا سال سفر کرنا پڑتا تھا۔ یہ سفر اتنا ہی دشوار تھا  جتنا کسی اور مقصد کے لئے سفر کرنا۔ اکثر اوقات  شعور کی شراکت داری کےخواہش مند ایک دوسرے تک پہنچ ہی نہیں پاتے  تھے۔  ایک دوسرے تک پہنچنے میں ایک کا انتقال ہو جاتا تھا یا دوسرے کا۔
اِس شعوری شراکت داری کےخواہش مند جب کسی علمی مرکز میں کسی  عظیم اسکالر کے بارے میں جاننے کے بعد سفر کرکے اِس اسکالر کے شہر میں داخل ہو رہے ہوتے تھے تو پتہ چلتا تھا کہ لوگ اُس اسکالر کو قبرستان میں  دفن کرکے آ رہے  ہِیں۔
لیکن سائنس نے  یہ سارے بُعد ختم کر دئیے ہیں۔ اب علم کا ٹھا ٹیں مارتا سمندر ہر انسان کی دسترس میں ہے۔  ہر چڑھتے دن کے ساتھ اِس سمندر کی گہرائی ، وسعت اور پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہر انسان  جتنا چاہے اور جس طرح چاہے خود کو اور دوسروں کو اِس  سمندر سے سیراب کر سکتا ہے۔اس میں کسی خاص شعبہ علم کی تخصیص نہیں ہے۔
اِس تناظر میں ابن ِخلدوں نے اپنے مقدمہ میں ابن ِبطوطہ کےحوالے سے ایک دلچسپ بات لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اُن سے کسی  حکمران نے پوچھا کہ ابنِ بطوطہ جہاں جاتا ہے اُس ملک کا بادشاہ اُس کی مہمانداری پرفوراً آمادہ ہو جاتا ہے ایسا کیوں ہے ؟
ابن خلدون  لکھتے ہی کہ میں نے اِس      سوال کے جواب میں اِس کی سادہ سی وجہ یہ بتائی کہ کوئی بھی  بادشاہ دوسرے ہم عصر بادشاہوں کے احوال جاننا چاہتے ہیں۔ ابن بطوطہ کے پاس ان کہانیاں کا وافر ذخیرہ تھا  وہ اُن کو دوسرے بادشاہوں کےاحوال بتاتا تھا  اِس لئے وہ اُس کو پذیرائی بخشتے تھے اور خود تک رسائی دیتے تھے ۔
ابن ِخلدوں کے واقعہ سے مجھے اپنے درس قران کے استاد یاد آ گئے ۔ وہ مولانا نہیں تھے۔  قائد اعظم کی طرح کلین شیو کرتے تھے۔ لیکن ہزاروں کا مجمع  اُن کا جمعہ کا  خطبہ سننے آتا تھا۔ کبھی اُنہوں نے نماز کی امامت نہیں فرمائی تھی۔ لیکن شہر کی  سب سے بڑی جامعہ مسجد میں جمعہ کی تقریر کرتے تھے اور ہر روز عشا کی نماز کے بعد درس ِقران اس طرح دیتے تھے کہ درس میں ہر شریک محفل کے سامنے با ترجمہ قران کھلا رکھا ہوتا تھا۔ کمال ان کا یہ تھا کہ ایک موضوع پر قران کی جتنی آیات جس جس سورت میں ہوتی تھیں  سب  کو  صفحہ نمبر بتا کر قران کا وہ صفحہ  کھلوا تے ، پھر آیت پڑھتے پھر  اس موضوع پر ان آیات کا باہمی تعلق سمجھاتے ۔ اس طرح گھنٹہ بھر میں کسی موضوع پر قران کی سب آیات سے کسی بھی مسئلہ کی مکمل تصویر سامنے آ جاتی۔ 
اب سائنس نے، خاص طور پر انڑنیٹ نے ،  یہ کام بھی ہمارے لئے آسان کرد یا ہے۔ انٹرنیٹ پر قران کے سرچ کے ایسے پروگرام موجود ہیں کہ کسی موضوع پر  ایک بٹن دبا کر ساری آیات الگ کرکے پڑھی جا سکتی  ہیں۔ ایک ہی جگہ کئی اسکالروں کا ترجمہ کئی زبانوں میں بیک وقت دیکھا جا سکتا ہے۔
لیکن انڑنیٹ کی یہ دین صرف قران تک محدود نہیں ہے۔ یہی صورت حال باقی شعبہ ہائے علم کے بارے میں بھی درست ہے۔ آپ کسی بھی موضوع پر ریسرچ کرنا چاہیں ۔ انٹر نیٹ پر آپ کے لئے دنیا بھر کی لائبریریاں ، میوزیمز ، میگزینز، ریسرچ پیپرز   ا ور دیگر سرکاری و غیر سرکاری،سب ذرائع  موجود ہیں۔ آپ  کسی بھی موضوع پر برق رفتاری سے  صرف چند لمحوں میں کسی بھی بادشاہ سے جو ابن بطوطہ جیسی شخصیات سے کہانیاں سنتا تھا یامیرے معلم درس   سے جو اپنے درس میں  قران کے صفحات کھلوا کر علم  فراہم کرتے تھے زیادہ انفارمیشن حاصل کر سکتے ہیں۔  
اب اجتماعی شعور میں شراکت داری  کی وسعت اور رفتار کا دائرہ عمل کسی ایک شعبہ علم تک محدود نہیں ہے۔  اب اس کا پھیلاو اور رفتار آفاقی حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس لئے اب  انسانوں میں اس  اجتماعی شعور کی اس شراکت داری میں اپنا  حصہ ڈالنے اور اپنا حصہ وصول کرنے کی دوڑ بھی تیز تر ہو چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اجتماعی  شعور کی اس شراکت داری کی دوڑ میں  جہاں سائنسی انقلاب  نے وسعتیں اور تیز رفتای پیدا کی ہے وہاں اِس  شعور کو محدود یا مقید رکھنے والے افراد یا اقوام کے لئے  بھی بہت سے چیلنجز  بھی پیدا کر دئیے ہیں ۔
خاص طور پر وہ افراد یا اقوام جو انسانی شعور کو کسی خاص سمت  کی طرف گامزن رکھنے  کی خواہش رکھتے ہیں ان کو بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔
ایک طرف اجتماعی انسانی شعور میں دن بدن بڑھتی ہوئی  یہ گہرائی، وسعت اور پھیلاؤ اُن تمام حدود و قیود اور تصورات کی  توڑ پھوڑ کا سبب بن رہی ہے تو دوسری طرف  خدا، تخلیق کائنات، زمین پر زندگی کی ابتدا، زمین پر انسان  کی آمد ، انسانی معاشرے کے آغاز اور ارتقا ، علوم کی پیدائش اور ارتقا کے بارے میں  نئے
منظر نامے سامنے آ رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ذہین ترین افراد ان منظر ناموں میں ہر روز نئی توانائیاں  بھر رہے ہیں جس سے اس اجتماعی شعور میں نت نئے طوفان  پیدا ہورہے ہیں جس سے قدامت پسند قوتوں  کے اضطراب اور غم و غصہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اجتماعی انسانی شعور کے ان بدلتے ہوئے منظر ناموں پر کسی کو مضطرب ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
بلکہ اس دوڑ میں سب کو کھلے دل اور دماغ کے ساتھ شامل ہو جانا چاہئے۔فیس بک پر پابندیاں لگانے، یوٹیوب  بند کرنے ، گوگل  تک رسائی روکنے سے اجتماعی انسانی شعور کے ان وسیلوں کو زیادہ دیر تک  محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اس اجتماعی انسانی شعور کے ان ذخیروں میں سے  نہ صرف اپنا حصہ وصول کرنا چاہئے بلکہ بھرپور انداز میں  اپنا حصہ  ڈالنا  بھی چاہئے تا کہ اس منظر نامے  میں ہماری وہ تصویریں سامنے آئیں جو آنا  چاہیں نہ کہ وہ تصویریں  جنہیں دیکھ کر ہم اپنے خلاف خود ہی جنگ شروع کردیتے ہیں۔
-0-0-0-0-0-0-0-0-
 
 
 
 



__._,_.___
Reply via web post Reply to sender Reply to group Start a New Topic Messages in this topic (6)
Recent Activity:
We encourage clash of ideas, freedom of expression, and civility of language while engaging in battle of ideas and enjoying freedom of expression.
.

__,_._,___


--
--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Pakistani Press" group.
To post to this group, send email to pakistanipress@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
pakistanipress+unsubscribe@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com/group/pakistanipress?hl=en?hl=en
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Pakistani Press" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to pakistanipress+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/groups/opt_out.
 
 

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.