Monday 28 January 2013

خالی آرزو سے کب آبرو بڑھتی ہے



2013/1/27 aapka Mukhlis <aapka10@yahoo.com>

خالی آرزو سے کب آبرو بڑھتی ہے

اختر عباس

میں لیپ ٹاپ پر سر جھکائے کافی دیر سے گم سم بیٹھا ہوں۔ میرے دونوں بچے کب کے سوچکے ہیں۔ اہلیہ نے بڑے دُلار سے پوچھا ہے آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟ سارے دن کے تھکے آئے تھے اب یقینا ٹی وی نے سردرد کردیا ہوگا…!
میں نے دھیرے سے کہا، ٹی وی نے تو نہیں ۸ ماہ کے لیے نئے وزیراعظم کے انتخاب نے جہاں سردردی عطا کی تھی وہاں ایک اشتہار نے مسرور کردیا ہے اس پر سوچے جا رہا ہوں۔ وہ اپنے رائٹنگ ٹبیل سے افسانہ لکھتے لکھتے اسے ادھورا چھوڑ کر میرے پاس آگئی ہے۔ مجھے اپنے لائف پارٹنر کی مزاج شناسی کی یہ خوبی بے حد عزیز ہے کہ وہ بن کہے جان لیتی ہے کہ کب مجھے کھانے پینے کو کچھ چاہیے اور کب کہنے سننے کو اس کا ساتھ چاہیے۔
اس کے آتے ہی میں نے کہنا شروع کیا ''میں بس اتنا چاہتی ہوں کہ میرا بچہ جو بھی بنے پہلے ایک سچا انسان بنے۔'' میرا یہ جملہ سن کر وہ بے اختیار ہنس دی۔ ''طبیعت واقعی خراب لگتی ہے آپ کی۔'' اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور سوچتی اور کہتی میں نے اسے بتانا شروع کیا یہ ایک انڈین کمرشل کے الفاظ ہیں۔ جسے ٹاٹا سالٹ بنانے والوں نے جاری کیا ہے۔ اللہ جانے کب بنایا۔ میں نے تو ابھی دیکھا ہے اور سرشاری کی کیفیت میں بیٹھا ہوں۔ میں نے کاغذ اٹھا کر اس پر جلدی سے لکھے آدھے پورے وہ لفظ پڑھنے شروع کیے جو اشتہار کے پس منظر میں بولے گئے تھے۔ اشتہار شروع ہوا تو ایک ماں گلاس میں تھوڑا سا نمک ڈالتی ہے۔
''میں تو بس اتنا چاہتی ہوں کہ میرا بچہ جو بھی بنے پہلے ایک سچا انسان بنے۔'' ۸ – ۱۰ سال کا ایک خوبصورت بچہ باپ کے ساتھ میز پر شطرنج کھیل رہا ہے۔ باپ نمکین لیموں پانی پینے لگتا ہے تو وہ چپکے سے مہرے ہلا کر اپنا مہرا آگے کر دیتا ہے۔ ماں کی آواز آتی ہے، ''شیطانی کرے، بے ایمانی نہیں۔'' (والد دیکھ کر مسکراتا اور بیٹا مہرہ واپس رکھ دیتا ہے۔) میوزیکل چیئر کا کھیل جاری ہے اور ہمارا ہیرو بچہ ایک چھوٹی لڑکی کو دھکا دے کر کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ ماں کی آواز آتی ہے ''بدمعاشی کرے لیکن بدمعاش کبھی نہ بنے'' اور وہ بچہ اٹھ کر اسی بچی کو کرسی پر بٹھا دیتا ہے۔ اگلا منظر اور بھی خوبصورت اور دل موہ لینے والا تھا۔ بچہ ایک دکاندار کے پاس کھڑا اور اپنے گلک سے نکال کر اسے پیسے دیتا ہے۔ دکاندار پیسے واپس کرتا ہے وہ زیادہ ہوتے ہیں۔ آواز آتی ہے، ''اس کی گلک ہمیشہ بھری رہے مگر ایمانداری کے پیسوں سے۔'' بچہ زیادہ ملا ہوا نوٹ واپس کرتا ہے۔ دکاندار خوش ہو کر مسکراتا ہے۔ اب کمپنی کی طرف سے پیغام شروع ہوتا ہے اور کیا لاجواب الفاظ (کاپی رائٹنگ) ہیں۔
''اگر ہر ماں بچے کو چٹکی بھر ایمانداری روز دے تو دیش تو ایماندار بنے گا ہی۔'' ماں کا مسکراتا چہرہ نمودار ہوتا ہے اور وہ کہتی ہے، 'آخر ہم نے بھی دیش کا نمک کھایا ہے۔'' ''ٹاٹا نمک۔ دیش کا نمک'' وائو! اس نے بے اختیار داد دی۔ ''بچوں کو دکھایا؟'' میں نے بتایا ''تین بار دکھایا، سمجھایا پھر ایک فضول سا اشتہار لگا، تو میں نے ٹی وی ہی بند کردیا۔ ''ایک بات کہوں'' اس نے معنی خیز انداز میں کہا ''یہ تو آپ کے میڈیا والوں کو جو ہر خیال اور پروگرام چوری کرتے ہیں سبقاً سبقاً دکھانا چاہیے۔'' ''اور اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کابینہ کے اجلاس سے لے کر ہر تعلیمی اور کاروباری ادارے کے پالیسی سازوں کو بھی دکھانا اور سنانا چاہیے۔'' میں نے لقمہ دیا۔
٭٭
رات نو دس بجے دفتر سے آ کر میں بالعموم ایک گھنٹہ ٹی وی دیکھتا ہوں۔ ایک زمانہ تھا ٹاک شوز کافی وقت لے جاتے تھے۔ بھلا ہو مہربخاری اور مبشر لقمان جیسے میزبانوں کا کہ انھوں نے اپنے جیسے کتنے پروگراموں کا کریز اور اہمیت ہی ختم کردی۔ راجہ پورس کے ہاتھیوں نے بھی اپنے لشکریوں اور سپہ سالاروں کے ساتھ اس جیسا ہی کچھ کیا ہوگا۔ پلانٹڈ اور پیڈ پروگرام دیکھنے میں بھلا کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ میزبان نے کسی سے پیسے لیے اور مفادات کمائے ہیں تو ایسے میں ناظرین کا کیا قصور کہ وہ آپ کے ارشادات عالیہ بھی سنیں اور آپ کے ممدوح کو بغور دیکھیں بھی۔ اس سے تو وہ اخبار سو درجے اچھے ہیں کہ ایسی سفارشی تصویروں اور خبروں کے نیچے لکھ دیتے ہیں " اشتہار" یا " ایڈورٹوریل"۔
میرے دونوں بچے اور میں باجماعت ''کلر ٹی وی'' کے ڈرامے تب تک دیکھتے ہیں جب تک کمردرد اور پتھر بیچنے کا بازار نہیں سج جاتا یا جب اچانک کوئی انتہائی فضول اشتہار چلنے لگے جس پر میں گھبرا کر چینل بدل دیتا ہوں۔ یہ اٹھنے کا اشارہ ہوتا ہے۔ حالانکہ دل میں کہیں ڈر اور شرمساری بھی ہوتی ہے کہ جاتے جاتے وہ یہ بھی تو سوچ سکتی ہیں کہ بابا اکیلے بیٹھ کر یہ اشتہار دیکھیں گے۔ ممکن ہے وہ کبھی نہ سوچیں صرف میرا ڈر ہی ہو مگر ایسے ڈر سے ڈرنا ہی بہتر ہے۔
میں نے اہلیہ کو بتایا کہ جب سیاسی نجومیوں کے تبصروں، خدشوں اور وسوسوں کی کوفت اور بے زاری سے بھر کر میں اٹھنے والا تھا تو اچانک ''کلر'' پر ٹاٹا نمک کا اشتہار سامنے آگیا اور میں حیرت سے اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ برسوں بعد کسی اشتہار کے آئیڈئیے، سلوگن اور الفاظ نے اس قدر خوشی دی تھی۔ اشتہار دیکھتے ہی میں نے لیپ ٹاپ آن کیا اور اس سے متعلقہ ساری معلومات ڈھونڈ نکالیں۔ یہ اس سے کہیں کم وقت میں دستیاب ہو گئیں جتنی راجہ پرویز اشرف نے نائین زیرو میں ایک پائوں پر کھڑے ہو کر الطاف بھائی کی تقریر سننے میں گزارے۔ بے چارے پہلی بار خیرسگالی کے لیے گئے اور الطاف بھائی ۴۰ منٹ سے پہلے رکنا ہی بھولے رہے۔
یہ اشتہار عام پاپولر سوچ سے ۱۸۰ ڈگری کے فرق سے بنا تھا۔ ہمارے ہاں بھی کبھی نورس والے بھول نہ جانا پھر پپا، نورس لے کر گھر آنا، کبھی ہمدرد نونہال کے ساتھ اخلاقی پیغام والا کوئی اشتہار ہوتا تھا۔ احمدفوڈ والوں کا جام اور جیلی کا اشتہار یوں شروع ہوتا تھا، ''صبح سویرے اٹھنا ہے یہ اچھی عادت۔ اللہ کے آگے جھکنا ہے سب سے اچھا کام۔ پھر جام اور جیلی کا نام اور پیغام ہوتا تھا۔ ایک دوبار کراچی سے ٹپال چائے والوں کا بھی اچھا اشتہار آیا تھا مگر ٹیلی فون کی کمپنیوں کے اشتہاروں نے تو سب روایتوں اور قدروں کو بلڈوز کرکے رکھ دیا۔
ٹاٹا جن کا سلوگن ہے "لیڈر وید ٹرسٹ" کوئی چھوٹی موٹی جذباتی کمپنی نہیں ہے۔ ۱۹۳۹ء سے قائم یہ کمپنی اب ۴۰۰ بلین روپے کی قیمت اور ورتھ رکھتی ہے ہر ماہ ٹاٹا نمک کے ۳۰۰ ملین (۳ ہزار لاکھ یعنی ۳۰ کروڑپیکٹس) فروخت ہوتے ہیں۔ ۴۶۴۵ لوگوں کے ساتھ کام کرنے والی ٹاٹا کیمیکلز کا ہیڈآفس ممبئی میں ہے۔ اس کے کارخانے گجرات، مہاراشٹر، یو پی اور مغربی بنگال میں ہیں۔ ۲۰۰۶ء سے ایک کمپنی خریدی جس کے کینیڈا، چیشائر، یوکے اور نیوجرسی (امریکا) میں پلانٹس کام کر رہے تھے۔ ۲۰۰۸ء میں ایک امریکی کمپنی کے ۱۰۰ فیصد شیئر ۴۰۰۰ کروڑ میںخریدنے کے بعد دنیا میں سوڈاایش بنانے والی دوسری بڑی کمپنی بن گئی ہے۔ ۹۵۴۳ کروڑ روپے سالانہ ریونیو کی حامل ٹاٹا پیکٹ نمک بنانے والی بھارت کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اس نے اس سال ''دیش کا نمک'' نام سے کی گئی طاقتور، مؤثر اور منفرد کمپیئن سے نمک کی برانڈ پوزیشننگ ہی بدل دی ہے۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اپنے آپ نہیں ہوا۔ ٹاٹا کے نائب صدر سیلز اور مارکیٹنگ کیپل مہرہ نے کہا  ''یہ درست ہے کہ سالوں سے ہم نمک کے خواص اور فوائد پر ہی فوکس کرتے رہے ہیں۔ ٹاٹا کو بطور لیڈر یہ ضروررت تھی کہ وہ بڑی سوچ کے ساتھ آئے۔ ہم نے جذبات کے ان پہلوئوں کو اس سے جوڑ دیا ہے جو بہت بنیادی اور ضروری ہوتے ہیں۔'' تب اس نے زور دے کر کہا، اس سوچ نے ٹاٹا نمک کو صحت اور ذائقے کی کیٹگری یا شیلف سے اٹھا کر جہاں یہ ہمیشہ سے اپنی ''پیورٹی''  کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا، اب اسے کروڑوں لوگوں کے دلوں سے جوڑ دیا ہے۔
یہ ایک بہترین مثال ہے کہ کیسے صرف پیسا کمانے والے کارپوریٹ اداروں کا ذہن بدلے تو صرف دس پیسے کے نمک سے بھی ملک کے ہزاروں بے سہارا بچوں کو چھت، حفاظت، عزت اور تحفظ مل جاتا ہے اور تخلیقی طور پر کیے اور سوچے کام کی وجہ سے آپ ایک ایسی نئی پہچان پالیتے ہیں جو نقل کرنے والوں کو یا مکھی پر مکھی مارنے والوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ اب یہ بات راجہ صاحب کو، زرداری صاحب یا قائم علی شاہ کو سمجھانا بہرحال آسان نہیں ہاں کائرہ صاحب یا پنجاب کے خادمِ اعلیٰ یا نئے نئے بنے نائب وزیراعظم پرویزالٰہی تو سمجھ سکتے ہیں۔ ذکر کا معاملہ تو یہ ہے کہ کوئی پسند نہ بھی کرے تو کرنا تو پڑے گا کہ اس کا بہرحال اثر تو ہوتا ہے کسی پر کم، کسی پر زیادہ۔
سارا مسئلہ ہی سوچ کا ہے۔ ہمارے میڈیا، حکومت اور کارپوریٹ سے جڑا ہر اہم آدمی کمانے پر لگا ہوا ہے۔ خوب کھا اور کما رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس ملک اور قوم کو لوٹایا  کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم ایسے خوش بخت ہیں کہ کچھ نام ڈھونڈ سکیں جنھوں نے ٹاٹا کے نمک کی طرح اچھے کاموں ، اچھی سوچ سے ہماری زندگی کو زیادہ ''سالٹی'' بنا دیا ۔سالٹیر نمک ہو
میں سوچتا ہوں کہ اجتماعی طور پر سیاسی و سماجی اور کاروباری اداروں کی کامیابی ہو، انفرادی اور اجتماعی آمدن کی بڑھوتری ہو، پودے ہوں یا بچے یہاں تک کہ قوم کا مستقبل اور تعمیر و تشکیل سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ایک آدھ بار رکھنے سے یہ نہیں پھلتے پھولتے۔ سوچ کو بدلنے، اس میں خوبصورتی اور تازگی لانے کا موسم بہت طویل اور مسلسل ہوتا ہے۔ ذرا سی بے دھیانی سے جڑیں تک سوکھ جاتی ہیں اور سوکھی جڑیں بار بار پانی دینے سے بھی ہری نہیں ہوتیں۔
ہماری سوچ کی جڑوں پر قومی و سیاسی بے دھیانی سے یا پورے دھیان سے سطحی سوچ، فوری کامیابی اور زیادہ منافع کے لیے سستی جنسی اشتہا کو جگانے والے رقص اور گانوں کے پانی کا چھڑکائو اتنا بڑھ گیا ہے کہ کبھی تو خوف آتا ہے کہ کچھ عرصے بعد ۸۰ چینلوں کی اس ''دلدلی زمین میں'' کسی اچھے خواب خیال کا گزر ہی کیسے ہوگا؟ سنا ہے سیانے کبھی کہا کرتے تھے کہ عقل مند وہ ہوتا ہے جو اپنی غلطیاں خود پہچانے، دوسری صورت میں لوگ آپ کے حوالے سے یہ کام خود کر لیتے ہیں۔ ایک غلطی سوچ اور اپروچ کی ہوتی ہے۔ یہ غلطیوں کی ماں کہلاتی ہے جو رُکے بغیر انڈے اور بچے دیے جاتی ہے۔ انڈیا کو اندھادھند نقل کرنے کی عادت کو ہمارے میڈیا نے تقریباً ایمان کا حصہ جان کر یوں بے دھڑک اپنا رکھا ہے کہ ہدایتکار فہیم برنی نے پچھلے دنوں اداکار شان سے کہا تھا ''ہمیں تو انڈیا کا ڈراما دِکھا کر کہا جاتا ہے، دیوار کا رنگ بھی وہ کردو اور کپڑے بھی وہی پہنا دو۔'' اسی سوچ نے نقل کرنے والے دولے شاہ کے چوہوں کو سوچ کی ایک رسی میں پرو دیا۔
ہر چینل پر ایک جیسے سطحی ڈرامے، ڈانس، میوزک شوز، سب میں انہی کی نقل کچھ عرصہ یہ سلسلہ کامیابی سے چلا اور پھر پِٹنے لگا تو اب ان کے پورے پورے سیریل، میوزک شوز، ڈانس پروگرام، رئیلٹی شوز حتیٰ کہ واہیاتی کی آخری منزل تک پہنچے ایوارڈ شوز اٹھا کر چلانے شروع کر دیے ہیں۔ سنا ہے کبھی ہمارے ہاں بھی سنسر اور میڈیا پالیسی ہوا کرتی تھی۔ یہ سن کر ایسے ہی لگتا ہے جیسے کوئی ہڑپا اور موئن جوداڑو کے آثارِ قدیمہ سے ملنے والے نوادرات کا ذکر کرے۔
میری بیٹی انورے تزمین ۴  سال کی ہونے والی ہے۔ آج صبح اس نے عجیب حرکت کی، جب میں اپنا بیگ اور کالم گاڑی میں رکھ رہا تھا تو بولی ''بابا! میری مٹھی میں کیا ہے؟''
میرا دل تو چاہا کہ کہہ دوں ہاتھی مگر باز رہا۔ بیوی نے دور سے آواز لگانی تھی اپنے بچوں کو بچے ہی سمجھا کریں۔ میں نے بڑے پیار سے کہا خود ہی بتا دو۔ بولی ''بابا ہار گئے''۔ ''جی بیٹا! بابا لوگ اپنی بیٹیوں سے ہمیشہ ہار ہی جاتے ہیں۔''
وہ بھاگ کر میرے گلے لگ گئی بلکہ لٹک گئی۔ ''بابا! میرا دل کرتا ہے آپ کو کچا کھا جائوں ٹاٹا نمک لگا کر۔'' کیوں! میں نے کیا قصور کیا ہے؟ اس نے اپنی بند مٹھی کھولی اس میں کتنے سارے سکے  تھے۔ بابا آپ کی گاڑی میں پڑے تھے۔ میں نے سارے نکال لیے۔ آپ کے ڈریسنگ ٹیبل کی ڈرا میں پڑے تھے میں نے وہ بھی لے لیے تھے، آپ کو پتا ہی نہیں چلا۔ میں نے اپنے منے والے پرس میں رکھ لیے تھے۔ پھر اب کیا کرنا ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
''کچھ بھی نہیں'' اس نے افسوس سے سارے سکے میرے ہاتھ میں پلٹتے ہوئے کہا ''بابا!وہ اصل میں دیش کا نمک جو کھایا ہے۔ رات آپ خوش ہو رہے تھے ناں اشتہار دیکھ کر اور بتا رہے تھے کہ گلک ہمیشہ ہمیشہ بھرا رہے مگر ایمانداری کے پیسوں سے، تو بابایہ تو میں نے پوچھے بغیر چکربازی کی تھی ناں! اتنے پیسوں کے بس ۲ جوس اور ۲ چپس آنے تھے۔ وہ تو آپ ویسے ہی لے دیں گے، تو پھر میں کیوں غلط کام کروں۔ صبح مما بھی کہہ رہی تھیں کہ چٹکی بھر ایمانداری بھی بڑی ہوتی ہے۔ ''
چٹکی بھر نمک کے اشتہار میں اتنا اثر ہوتا ہے۔ دسترخوان پر سجے کم نمک والے کھانے پر ڈالنے کے بعد ذائقہ بدلتے اور بہتر ہوتے تو دیکھا تھا۔ لیکن ایک اشتہار کی چٹکی بھر لائن اور پیغام بھی زندگی کی مٹھاس بڑھا دیتا ہے، یہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کہنے کو تو ہم سب بڑوں نے اپنے دیش کا کافی نمک کھایا ہے۔ کچھ بے صبروں نے تو دیش کو بھی کافی کھایا ہے۔ ساتھ ساتھ ہندوستان کی تہذیب اور کلچر کو انٹرٹینمنٹ کے نام پر تو باقاعدہ گھٹنوں کے بل ہو کر لقمہ لقمہ جرعہ جرعہ نہیں بلکہ ڈیک لگا کر پیا بھی ہے۔
ملک میں میڈیا کی ترقی کے علمبردار اور ملک کی سیاست اور سماج کو صحیح رُخ دینے کے ذمے دار دونوں ہی اتنے مصروف ہیں کہ انھیں ذومعنی اشتہاروں کا جادو جس کے بارے میں کبھی سات پردوں میں بھی بات نہیں کی جا سکتی تھی، سر چڑھ کر بولتا نظر آتا ہے۔
ممکن ہے میری طرح کسی روز آپ کا بھی دل چاہے کہ آپ استاد، طالب علم، مینیجر، مالک، کارخانہ دار، سیاست دان یا محنت کش ہوں کہ ایک روز آپ اپنا چینل کھولیں اور اچانک اس پر ایک اشتہار شروع ہو، ایک پاکستانی ماں اپنے بچے سے کہہ رہی ہو، ''میں تو بس اتنا چاہتی ہوں میرا بچہ جو بھی بنے پہلے اچھا انسان بنے اور سچا مسلمان بنے۔'' مگر جلدی مقبول ہونے کی ہوس اور اس سے جلدی مالدار ہونے کی آرزو میں مبتلا لوگوں سے ایسی خواہش کیونکر کی جا سکتی ہے۔
ایسی بات سن کر ان کی تو جبینوں پر آئی شکنیں بھی نہیں جائیں گی مگر کیا کروں سوچ بدلے تو کچھ بدلنے کا راستہ بھی نکلے، یہ تو سوچنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ شکنوں کے خوف سے کیا آرزو کرنا بھی بند کردیں آرزو بدلے تو ہی قوموں اور کاروبار کی آبرو بڑھتی ہے۔ سوچ بدلتی ہے تو پھر بہت کچھ بدل جاتا ہے مگر خالی آرزوئوں سے بھلا کب آبرو بڑھتی ہے۔



--
-- 
For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to http://ca13054d.tinylinks.co
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.